Thursday, July 28, 2022

بتا رہا ہے شکاری یہ اضطرار ترا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بتا رہا ہے شکاری یہ اضطرار ترا۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 بتا رہا ہے شکاری یہ اضطرار ترا


بنوں گی دام میں آتے ہی میں شکار ترا



خزاں رسیدہ درختوں میں کر اسے شامل


یہ عشق ہے ثمر آور نہ سایہ دار ترا



صدائے چشم کو تو جانتا نہیں شائد


کرے گی مدتوں پیچھا مری پکار ترا



تو میرے ساتھ رویّے میں بہتری لے آ


یہ لوگ نام نہ رکھ دیں ستم شعار ترا



مقامِ بے حسی پر لائی بے بسی کہ مجھے


کوئی بھی دکھ نہیں باقی نہ انتظار ترا



ترے ہی دھوکے سے دنیا سمجھ میں آئی ہے


لہذا شکریہ اے شخص بے شمار ترا



وہی ہے جان کا دشمن بنا ہوا کومل


جو بارہا مجھے کہتا تھا جانثار ترا

شب کو دن میں بدل رہا ہوں میں

شب کو دن میں بدل رہا ہوں میں


 غزل


شب کو دن میں بدل رہا ہوں میں


رک گیا ہوں کہ چل رہا ہوں میں



تھام لے گی کبھی تو صبح نئی 


شام سے پہلے ڈھل رہا ہوں میں



دیکھ تو مثلِ کرمکِ شب تاب


اپنی آتش میں جل رہا ہوں میں



زندگی دیکھ تیرے ہاتھوں سے 


ریت جیسا پھسل رہا ہوں میں


 
ڈوبتی عمر ہے نگاہوں میں


اور کنارے پہ چل رہا ہوں میں



خاک ہونے سے کچھ ذرا پہلے


اِن حسینوں کا دل رہا ہوں میں 


محمد اکرام قاسمی

read more

اک نیند کی وادی سے


کلّیوں کا تبسّم ہو، کہ تم ہو، کہ صَبا ہو

کلّیوں کا تبسّم ہو، کہ تم ہو، کہ صَبا ہو

 کلّیوں کا تبسّم ہو، کہ تم ہو، کہ صَبا ہو 

اِس رات کے سنّاٹے میں، کوئی تو صدا ہو


یُوں جسم مہکتا ہے ہَوائے گُلِ تر سے !

جیسے کوئی پہلوُ سے ابھی اُٹھ کے گیا ہو


دُنیا ہَمہ تن گوش ہے، آہستہ سے بولو 

کچھ اور قریب آؤ ، کوئی سُن نہ رہا ہو


یہ رنگ، یہ اندازِ نوازش تو وہی ہے

شاید کہ کہیں پہلے بھی توُ مجھ سے مِلا ہو


یوں رات کو ہوتا ہے گُماں دِل کی صدا پر 

جیسے کوئی دِیوار سے سر پھوڑ رہا ہو


دُنیا کو خبر کیا ہے مِرے ذوقِ نظر کی 

تم میرے لیے رنگ ہو، خوشبو ہو، ضیا ہو


یُوں تیری نِگاہوں میں اثر ڈُھونڈ رہا ہُوں

جیسے کہ تجھے دِل کے دَھڑکنے کا پتا ہو


اِس درجہ محبّت میں تغافل نہیں اچھّا

ہم بھی جو کبھی تم سے گُریزاں ہوں تو کیا ہو

ہ

م خاک کے ذرّوں میں ہیں اختر بھی، گُہر بھی

تم بامِ فلک سے، کبھی اُترو تو پتا ہو


اختر ہوشیارپوری

دو اشک چار باتیں سنانے لگے مجھے

دو اشک چار باتیں سنانے لگے مجھے

 دو اشک چار باتیں سنانے لگے مجھے 

مدت کے بعد میرے منانے لگے مجھے 


میں ٹوٹتی رہی وہ بنانے لگے مجھے 

اک پل کی زندگی میں زمانے لگے مجھے 


انسان کا مزاج یہ فطرت یہ رنگ بھی 

قدرت بھی تیری تیرے خزانے لگے مجھے 


برسی نہ میرے تن پہ کبھی بوند کرم کی 

اب تو مِرے ہی سائے جلانے لگے مجھے 


میں مانگ تو خدا سے رہی تھی مگر ستم 

رحمت کے در سے لوگ اٹھانے لگے مجھے 


برباد ہو رہے ہیں یاں شہروں میں آدمی 

جنگل کی زندگی میں گھرانے لگے مجھے 


دنیا ترے کمال پرانے لگے مجھے 

یہ کیا مرے خیال میں آنے لگے مجھے 


اک اس طرح سے لوگ جلانے لگے مجھے 

پھر نام تیرا لے کے نچانے لگے مجھے 


بلبل نے چھیڑ دی تھی غزل گل کے پیار میں 

اس وقت میرے نوحے ترانے لگے مجھے 


دو اشک چار باتیں سنانے لگے مجھے 

مدت کے بعد میرے منانے لگے مجھے 


میں ٹوٹتی رہی وہ بنانے لگے مجھے 

اک پل کی زندگی میں زمانے لگے مجھے 


انسان کا مزاج یہ فطرت یہ رنگ بھی 

قدرت بھی تیری تیرے خزانے لگے مجھے 


برسی نہ میرے تن پہ کبھی بوند کرم کی 

اب تو مِرے ہی سائے جلانے لگے مجھے 


میں مانگ تو خدا سے رہی تھی مگر ستم 

رحمت کے در سے لوگ اٹھانے لگے مجھے 


برباد ہو رہے ہیں یاں شہروں میں آدمی 

جنگل کی زندگی میں گھرانے لگے مجھے 


دنیا ترے کمال پرانے لگے مجھے 

یہ کیا مرے خیال میں آنے لگے مجھے 


اک اس طرح سے لوگ جلانے لگے 

پھر نام تیرا لے کے نچانے لگے مجھے 


بلبل نے چھیڑ دی جوں غزل گل کے پیار میں

اس وقت میرے نوحے ترانے لگے مجھے 


شہرِ حسن

سنے گا کب تلک کوئی ہمارے عشق کا قصہ

سنے گا کب تلک کوئی ہمارے عشق کا قصہ

 سنے گا کب تلک کوئی ہمارے عشق کا قصہ

کہانی ختم کرتا ہوں، محبت کھو گئی میری


(تنویر سلیمی)

میں وصل اور فراق دونوں مرحلوں میں ہوں

میں وصل اور فراق دونوں مرحلوں میں ہوں

  میں وصل اور فراق دونوں مرحلوں میں ہوں

بیٹھا ہے میرے پاس وہ جانے کے بعد بھی-


صرف آنکھیں ہی دیکھیں تھیں میں نے،

صرف آنکھیں ہی دیکھیں تھیں میں نے،

 صرف آنکھیں ہی دیکھیں تھیں میں نے،

نیم باز اُن آنکھوں سے جب،

نیم کش اک نگاہ اٹھی تھی،

اک خلش رہ گئی ہے سینے میں،


گلزار

سو وہ آنسو ہمارے آخری آنسو تھے

سو وہ آنسو ہمارے آخری آنسو تھے

 سو وہ آنسو ہمارے آخری آنسو تھے

جو ہم نے گلے مِل کر بہائے تھے


🔥

ایلیاء

دیکھنے کے لیے__ سارا عالم بھی کم

دیکھنے کے لیے__ سارا عالم بھی کم

 دیکھنے کے لیے__ سارا عالم بھی کم


چاہنے کے لیے______ ایک چہرا بہت ❤

کسی کو دیکھنا ہی روح و دِل کی راحت ہو!

کسی کو دیکھنا ہی روح و دِل کی راحت ہو!



 کسی کو دیکھنا ہی روح و دِل کی راحت ہو


اب اِس سے بڑھ کے بھلا اور کیا محبّت ہو

read more

اِس طرح نہیں کرتے، رابطہ تو رکھتے ہیں



سلسلے جو وفا کے رکھتے ہیں

سلسلے جو وفا کے رکھتے ہیں

 سلسلے جو وفا کے رکھتے ہیں 

حوصلے انتہا کے رکھتے ہیں 


ہم کبھی بد دعا نہیں دیتے 

ہم سلیقے دعا کے رکھتے ہیں 


اُن کے دامن بھی جلتے دیکھے ہیں 

وہ جو دامن بچا کہ رکھتے ہیں


ہم نہیں ہیں شکست کے قائل 

ہم سفینے جلا کے رکھتے ہیں 


جس کو جانا ہے وہ چلا جائے 

ہم دیئے سب بجھا کے رکھتے ہیں


ہم بھی کتنے عجیب ہیں، محسن 

درد کو دِل بنا کے رکھتے ہیں


مُحسن نقوی