تسکین جو دل کی تمہیں کرنا نہیں آتا
دل کو بھی مری جان ٹھہرنا نہیں آتا
مٹھی میں دبا کر دلِ مضطر کو وہ بولے
ہاں اب تو کہے مجھ کو ٹھہرنا نہیں آتا
اک نقش تمہارا ہے کہ وہ دل میں جما ہے
اک تم ہو کہ پہلو میں ٹھہرنا نہیں آتا
ڈر ہم کو ہے بدنام نہ دشمن ہوں تمہارے
تم کہتے ہو عُشاق کو مرنا نہیں آتا
مہندی کی جگہ مَلتے ہیں خُونِ دلِ عُشاق
کم سن ہیں ابھی انکو سنورنا نہیں آتا
دل لے میرا مجھ سے ابھی، کر گئے انکار
پھر آپ کہیں گے کہ مُکرنا نہیں آتا
کہیے تو ابھی لیلے وہ چُٹکی مرے دل میں
ہاتھ اسکو مگر سینے پہ دھرنا نہیں آتا
سُن لو جو کسی روز تو کُھل جائے یہ تم پر
آتا ہے مجھے نالہ کہ کرنا نہیں آتا
چلتے ہو جو کرتے ہوئے پامال دلوں کو
کیا پاؤں زمیں پر تمہیں دھرنا نہیں آتا
کی موت نہ آنے کی شکایت تو وہ بولے
"ہاں ایسے ہو بھولے تمہیں مرنا نہیں آتا"
اللہ تری زلف کے سودے سے بچائے
وہ جن ہے جسے چڑھ کے اُترنا نہیں آتا
چہرے پہ نہ غازہ ہے نہ بالوں میں ہے افشاں
یہ جھگڑے بھرا ان کو سنورنا نہیں آتا
آنکھوں میں سما جائیں وہ دل میں اتر آئیں
کوٹھے سے جلیلؔ ان کو اترنا نہیں آتا
حافظ جلیل حسن جلیلؔ مانکپوری
Comments
Post a Comment