پُرتکلف سی ، مہکتی ، وہ سُہانی چائے



پُرتکلف سی ، مہکتی ، وہ سُہانی چائے

اب کہاں ھم کو میّسر ھے تمہاری چائے


میں نے چینی کی بھی مقدار بڑھا کر دیکھا

بن ترے لگتی ھے کچھ کڑوی کسیلی چائے


میں تری یاد میں کھو جاتا ھوں بیٹھے بیٹھے

منہ مرا تکتی ھی رہ جائے ، بیچاری چائے


وہ مُجھے بُھول گئی، میں نہیں بُھولا اُسکو

ساتھ رھتی ھے شب و روز خیالی چائے


تیرے وعدوں سے بھرےخط بھی دکھانے ھیں تجھے

آج کی شام کو چائے ھے ــــــــ ضروری چائے !


ایک دن سو کے اُٹھوں میں، توُ مرے سامنے ھو

کاش ہاتھوں میں لئے ایک پیالی چائے


تھام کے ہاتھ کو، لاتی ھے مُجھے پاس ترے

بھاپ اُڑاتی ھوئی ، ٹیبل پہ ، دِوانی چائے


لمس ہاتھوں کا ترے، نا ھی محبّت کا سُرور

راس آئی نہ کبھی مجھ کو پرائی چائے


ڈال کے کپ میں تقاضائے محبت کا اُبال

یاد آتی ھے مُجھے تیری سوالی چائے,