میں ڈھونڈ تو رہا ہوں مگر مل نہیں رہا

 میں ڈھونڈ تو رہا ہوں مگر مل نہیں رہا

جیسے میرے سینے میں اب دل نہیں رہا


جانے کہاں سے خون کے چشمے ابل پڑے

یہ گھر مزید رہنے کے قابل نہیں رہے


منطق، دلیل، فلسفے بے کار جائیں گے

اب ذہن تیری باتوں پر مائل نہیں رہا


کیا سوچ کر مسیحا بنایا تھا تجھے

تجھ سے تو ایک زخم ہی اب سِل نہیں رہا


ہتھیار سارے ڈال دیے جنگِ زیست میں

اب میں خود اپنے مدِ مقابل نہیں رہا


فیض محمد شیخ