Wednesday, July 27, 2022

میں ڈھونڈ تو رہا ہوں مگر مل نہیں رہا

میں ڈھونڈ تو رہا ہوں مگر مل نہیں رہا

 میں ڈھونڈ تو رہا ہوں مگر مل نہیں رہا

جیسے میرے سینے میں اب دل نہیں رہا


جانے کہاں سے خون کے چشمے ابل پڑے

یہ گھر مزید رہنے کے قابل نہیں رہے


منطق، دلیل، فلسفے بے کار جائیں گے

اب ذہن تیری باتوں پر مائل نہیں رہا


کیا سوچ کر مسیحا بنایا تھا تجھے

تجھ سے تو ایک زخم ہی اب سِل نہیں رہا


ہتھیار سارے ڈال دیے جنگِ زیست میں

اب میں خود اپنے مدِ مقابل نہیں رہا


فیض محمد شیخ

No comments:

Post a Comment