بدن کے جام میں کھلتے گلاب جیسی ہے




 بدن کے جام میں کھلتے گلاب جیسی ہے

سنا ہے اس کی جوانی شراب جیسی ہے


کنول کنول ہے سراپا، غزل غزل چہرہ

وہ ہوبہو کسی شاعر کے خواب جیسی ہے


اندھیرے دور کرے سب کی پارسائی کا

وہ ایک شکل، کہ جو ماہتاب جیسی ہے


بغیر جام و سبو، چاند رات کی حالت

کسی غریب کے عہدِ شباب جیسی ہے


نہ شاعری، نہ محبت، نہ جام اے واعظ 

یہ زندگی بهی تری اک عذاب جیسی ہے


قتیل میں نے کیا پیار اک ستمگر سے

یہ وہ خطا ہے جو کار ثواب جیسی ہے

Tum ab tak munafiq dilon mein rahi ho

our