کسی کلی نے بھی نہ دیکھا،آنکھ بھر کے مجھے

 

کسی کلی نے بھی نہ دیکھا،آنکھ بھر کے مجھے

گزر کئی جرس گل،اداس کر کے مجھے


میں سو رھا تھا،کسی یاد کی شبستاں میں

 نیں جگا کے چھوڑ گئے،قافکے سحر کے مجھے


میں تیرے درد کی طغیانیوں ،میں ڈوب گیا 

پکارت رہے تارے ابھر کے مجھے


تیرے فراق کی راتین،کبھی نہ بھولیں گی

مزے ملے انہیں راتوں میں،عمر بھر کے مجھے


ذرا سی دیر ٹھرنے دے،اے غم دنیا مجھے

بلا رھا ہے کوئی،بام سے۔ اتر کے مجھے