کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہونہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہووہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیںسبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہوکِیا غم خوار نے رسوا، لگے آگ اس محبّت کونہ لاوے تاب جو غم کی، وہ میرا راز داں کیوں ہووفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہراتو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہوقفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدمگری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہویہ کہہ سکتے ہو "ہم دل میں نہیں ہیں" پر یہ بتلاؤکہ جب دل میں تمہیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہوغلط ہے جذبِ دل کا شکوہ دیکھو جرم کس کا ہےنہ کھینچو گر تم اپنے کو، کشاکش درمیاں کیوں ہویہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہےہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہویہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیںعدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہوکہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائیبجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہونکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالبؔترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو
مرزا اسداللہ خاں غالب
Comments
Post a Comment