سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے

 غزل 

سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے

ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے

شکوۂ ظلمتِ شب سے، تو کہیں‌ بہتر تھا

اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں

پھر بھی اک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے

جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا، ورنہ ہم بھی

پابجولاں ہی سہی، ناچتے گاتے جاتے

اِس کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا

تم فراز! اپنی طرف سے تو، نبھاتے جاتے

احمد فراز

read more

رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا

our