Sunday, August 7, 2022

بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے

بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے

 بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے

تم سے کہیں ملی ہوں مجھے یاد کیجیے


منزل نہیں ہوں خضر نہیں راہزن نہیں

منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے


میری نگاہ شوق سے ہر گل ہے دیوتا

میں عشق کی خدا ہوں مجھے یاد کیجیے


نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے

اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے


گم صم کھڑی ہیں دونوں جہاں کی حقیقتیں

میں ان سے کہہ رہی ہوں مجھے یاد کیجیے۔۔۔


ساغرؔ کسی کے حسن تغافل شعار کی

بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے..


ساغر صیدیقی

No comments:

Post a Comment