ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

 


ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں

ہے دورِ جام اول شب میں خودی سے دور

ہوتی ہے آج دیکھیے ہم کو سحر کہاں

یارب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر

تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں

اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیش عشق

رکھی ہے آج لذتِ زخمِ جگر کہاں

بس ہو چکا بیان کسل و رنج راہ کا

خط کا مرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں

کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر

اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ بات ہے کچھ اور

عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں

ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی

جی چاہتا نہ ہو تو زبان میں اثر کہاں

حالی نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب

آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں


مولانا الطاف حسین حالی

read more

نصیب والی ہوں تیری لگن میں رہتی ہوں

our