ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے Skip to main content

ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے

 

ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے


ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے


مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے


کہیں ہے عید کی شادی کہیں ماتم ہے مقتل میں 


کوئی قاتل سے ملتا ہے کوئی بسمل سے ملتا ہے


پس پردہ بھی لیلی ہاتھ رک لیتی ہے آنکھوں پر


غبارِ ناتوانِ قیس جب محمل سے ملتا ہے


بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی 


ملاقاتی ترا گویا بھری محفل سے ملتا ہے 


مجھے آتا ہے کیا کیا رشک وقتِ ذبح اس سے بھی


گلا جس دم لپٹ کر خنجرِ قاتل سے ملتا ہے 


بظاہر با ادب یوں حضرتِ ناصح سے ملتا ہوں 


مریدِ خاص جیسے مرشدِ کامل سے ملتا ہے


مثال گنج قاروں اہل حاجت سے نہیں چھپتا 


جو ہوتا ہے سخی خود ڈھونڈ کر سائل سے ملتا ہے


جواب اس بات کا اس شوخ کو کیا دے سکے کوئی 


جو دل لے کر کہے کم بخت تو کس دل سے ملتا ہے 


چھپانے سے کوئی چھپتی ہے اپنے دل کی بیتابی 


کہ ہر تارِ نفس اپنا رگِ بسمل سے ملتا ہے


عدم کی جو حقیقت ہے وہ پوچھو اہلِ ہستی سے 


مسافر کو تو منزل کا پتہ منزل سے ملتا ہے 


غضب ہے داغ کے دل سے تمہارا دل نہیں ملتا


تمہارا چاند سا چہرہ مہ کامل سے ملتا ہے 



داغ دہلوی

Read more

میں زوال عشق کی سب سے حسیں کہانی ہوں

Our 

Comments