اپنی تقدیر پہ کل خود لپٹ کر روئے

اپنی تقدیر پہ کل خود لپٹ کر روئے

  

غزل

اپنی تقدیر پہ کل خود لپٹ کر روئے

ایسا روئے در و دیوار چمٹ کر روئے


اپنا دکھ ہم نے زمانے سے چھپائے رکھا 

اپنے اندر کسی کونے میں سمٹ کر روئے


زندگی تیرے نوازے گئے ہر دکھ سے ہم

طفلِ ناداں کی طرح آہ چپٹ کر روئے


دیمکِ وقت نے چاٹے کیا کتابی چہرے 

مصحفِ زیست کے اوراق پلٹ کر روئے 


عقل مندوں کے قدم چوم رہی تھی دنیا 

کم خرد دامنِ قسمت سے چمٹ کر روئے


تو بھی دیتا رہا غم پیرِ فلک پے در پے 

ہم جواں سال بھی نامِ خدا، ڈٹ کر روئے


ہنس کے صحرائے اُداسی کو لتاڑا حاویؔ

آبلے پاؤں کے گرچہ مرے پھٹ کر روئے 


(حاویؔ مومن آبادی)