ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے

ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے

 ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے 


وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے 



جس کی آواز میں سلوٹ ہو نگاہوں میں شکن 


ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے 



لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اسے بہنے دو 


ایسے دریا کا کبھی رخ نہیں موڑا کرتے 



جاگنے پر بھی نہیں آنکھ سے گرتیں کرچیں 


اس طرح خوابوں سے آنکھیں نہیں پھوڑا کرتے

 


شہد جینے کا ملا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا 


جانے والوں کے لیے دل نہیں تھوڑا کرتے 



جا کے کہسار سے سر مارو کہ آواز تو ہو 


خستہ دیواروں سے ماتھا نہیں پھوڑا کرتے


گلزار

read more

وہ بخت کے تخت پہ بیٹھا کوئی نایاب شہزادہ