آرزو دل کی مِرے اب کے نہ ارمان بنے

 

آرزو دل کی مِرے اب کے نہ ارمان بنے 

دیکھ لے مجھ کو کہیں دل میں نہ حرمان بنے 


میرے ہونے کا اجر مجھ کو یہیں مل جاتا 

بھول کر بھی جو کبھی تو مِرا مہمان بنے 


ہوں تو مٹی کی مگر تم ہی سے مانگی ہوں خدا 

جوں سمندر کو دی اس طرح مِری جان بنے 


ہاتھ میں جن کے خزانے ہیں یقیں ہے ان کو 

بے یقیں دل ہیں وہی دل جہاں ارمان بنے 


ایک وہ دور کہ جب رنگِ لہو لال میں تھا 

ایک یہ وقتِ غضب دوست بھی انجان بنے 


ہوش کر آدمی یہ وقت کسی کا بھی نہیں 

وہ بھی کل شہر تھے جو آج میں ویران بنے 


مٹی مٹی میں ملی جب کے تھے انسان بنے 

اور تم دشت میں پھرتے ہو ابھی خان بنے 


آپ سے بن نہیں پاتی ہے سخن میں بھی زمیں 

جب مِری خاکِ خوں تڑپی کئی دیوان بنے 


جب کسی بحر میں آئو تو کرو یوں وحشت 

دل کے اٹھتے ہوئے شعلے سے گلستان بنے 


مسکراتی ہوئی دیکھے ہے ابھی حور مجھے 

کیوں نہ پھر یار طبیبا مِری مسکان بنے 


ہم غریبوں کو مٹانے کا ہی سامان بنے 

تُو نہ چاہے تو یہاں کب کوئی سلطان بنے 


لاکھ شاعر زمیں میں میری سخن کرتے ہیں 

میرے اک شعر کی تشریح میں دیوان بنے 


شہرِ حُسن


میں زوال عشق کی سب سے حسیں کہانی ہوں