سروں کا ایک دریا ہے رواں کس بحر کی جانب

 غزل


حسین ثاقب


سروں کا ایک دریا ہے رواں کس بحر کی جانب

فصیلِ شہرِ بے پروا سے قلبِ شہر کی جانب


شہادت کا سفر ہے پھر وفا کی لہر کی جانب

یہ دل بھی گامزن ہے علقمہ کی نہر کی جانب


ہے ہر سفلہ نفس قابض ترے گلزارِ ہستی پر

کرم کی اک نظر ہو آج نظمِ دہر کی جانب


بلائیں کاٹ کھانے کو سبھی تیار بیٹھی ہیں

کہ جوں جوں شب چلی جاتی ہے پچھلے پہر کی جانب


یہ نظریں دیکھتی ہیں بے یقینی بے بسی سے کیوں

کبھی تریاق کی جانب کبھی اس زہر کی جانب


بھٹکتےتھے تمدٌن کے لئے جو دشتِ غربت میں

وہ بڑھتے جا رہے ہیں ماوراء النہر کی جانب