کچھ نہیں مانگتا تجھ سے میں بس

 کچھ نہیں مانگتا تجھ سے میں بس

ایک ہونا نہ مجھ سے خفا تُو ۔۔


مجھ سے نفرت ہی کر ! کر سہی تُو

یہ تعلق تو مجھ سے نبھا تُو 


تُو محبت سے پہلے بشر تھا 

بن رہا ہے میرا اب خدا تُو 


میں نے پہلی دفع ہے اجڑنا ؟

اس ہجر سے مجھے نہ ڈرا تُو 


اس جدائی سے کس نے ہے مرنا ؟

ہنس دیا اور ہنس کے کہا ! تُو 


تجھ پے ایسے ہی تکیہ کیا تھا 

ہائے نکلا ہے واہ بے وفا تُو 


چھوڑ دے در جو در بند ہوا ہے

ہاتھ دستک سے اب نہ تھکا تُو


یہ بدن کی دراڈیں بڑھیں گی 

خشک مٹی پے مٹی لگا تُو  


فضل الرحمن 

مَسافَت میں اَلگ ہے میرے قَبِیلے کا