صد خواب لئے آنکھ یہ بےخواب بہت ہے

 غزل


صد خواب لئے آنکھ یہ بےخواب بہت ہے

اور دل بھی شبِ وصل میں بے تاب بہت ہے


ہے نغمۂ ہستی کو اگر ساز کی حاجت

پھر اس کے لئے درد کا مضراب بہت ہے


یہ کشتِ وفا ہو گئی ویران تو کیا غم 

اک زخم کا گلشن ہے کہ شاداب بہت ہے


ہوں دام تو ہر چیز میسر ہے جہاں میں

اک جنسِ محبت ہے جو نایاب بہت ہے


کافر کی تو منزل ہے سرِ عرشِ تمنٌا

ملٌا کے لئے منبر و محراب بہت ہے


اس گھر میں کہاں لعل و جواہر کی دفینے

ہاں دل کے خزینے کو یہ خونناب بہت ہے


گر ملک بچانا ہو کسی سیلِ بلا سے

کیا اس کے لئے غیرتِ پنجاب بہت ہے؟

حسین ثاقب

Barish sharab-e-arsh hai ye soch kar ‘adam’

our