اس انجمن میں یہ نظمِ نشست کیا کہنے

 غزل

اس انجمن میں یہ نظمِ نشست کیا کہنے

ہیں ایک درجے میں سب خوب و زشت کیا کہنے


اسی چراغ نے اس دل میں روشنی بھردی 

نگاہِ خواجۂ دربارِ چشت کیا کہنے


یہاں پہ رہنا ہے اک نعمتِ خداوندی

ترا دیار ہے رشکِ بہشت، کیا کہنے


یہ اپنا ملنا بچھڑنا, بچھڑ کے پھر ملنا

لکھا یہی ہے سرِ سرنوشت، کیا کہنے


یہاں کے موسمِ برسات میں برستے ہیں 

کہیں پہ پھول کہیں سنگ و خشت کیا کہنے


وہ سیم تن ہے یا سیماب دل ہے یا کیا ہے 

عجیب پائی ہے اس نے سرشت کیا کہنے


حسین ثاقب



کسی نے دیکھا تھا ہاتھ میرا