صحرا میں کھو گیا ہے سفینہ حُسین کا

 سلام بحضور شہِ کربلا 

صحرا میں کھو گیا ہے سفینہ حُسین کا

اب منتظر رہے گا مدینہ حسین کا


جس پر سجی ہوئی ہیں بہَتّر شہادتیں 

چوڑا ہے آسماں سے بھی سینہ حُسین کا


اے دشتِ کربلا تُو معلٰی یونہی نہیں۔

تجھ پر بہا ہے خون پسینہ حُسین کا


رب تک رسائی ملتی ہے میرے حسین سے 

ہے عرش سے جڑا ہوا زینہ حُسین کا


پروردگار! خون میں تر ہے جبینِ شاہ 

منہ دیکھنے نہ پائے سکینہ حسین کا 


سجدے تو لاکھ ہوتے رہیں گے زمین پر 

بے مثل ہے جہاں میں قرینہ حسین کا


بے سود جی رہے ہیں جہاں میں ہم اور آپ 

مرنا بھی ہے حسین کا , جینا حُسین کا 


فرخ عدیل