مَسافَت میں اَلگ ہے میرے قَبِیلے کا جہاں پانی نہی ہوتا وہِیں خیمے لَگاتے ہیں راکب مختار دیکھنے والے، مجھے سمجھ لیتے ہیں
روزِ قیامت ھے ، میرا ھر روزِ حیات حشر ھوُں ، اور خود اپنے اندر برپا ھوُں کچھ نہیں مانگتا تجھ سے میں بس
آپھر کریں یار طرحدار،کی باتیں خوشبو سے مہکتے ھوئے،گلزار کی باتیں خوابوں میں جو آتا ہے،خیالوں میں رچا ہے جو دل میں رچا ہے،اسی دلدار کی باتیں ہر تیر ستم سپنے ہی،سینے پہ جو روکے جو ڈھال ہے مظلوم کی،اس …
تُم اُسے بس میری آنکھوں کا حوالہ دینا میں نے دریا کو ہر اِ ک بات بتاٸ ہوٸ ہے واصف علی واصف بدست مینا اٹھا جو ساقی
مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چُراؤ مجھ سے اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حَل کر دو نہیں رنگت گلابوں میں،کہاں تم کھو گئے جاناں
Social Plugin