درد کچھ دیر ہی رہتا ہے، بہت دیر نہیں


’’درد‘‘
درد کچھ دیر ہی رہتا ہے، بہت دیر نہیں
جس طرح شاخ سے توڑے ہوئے اک پتے کا رنگ

ماند پڑ جاتا ہے کچھ روز الگ شاخ سے رہ کر
شاخ سے ٹوٹ کے یہ درد جیے گا کب تک؟

ختم ہوجائے گی جب اس کی رسد
ٹمٹمائے گا ذرا دیر کو بُجھتے بُجھتے

اور پھر لمبی سی اک سانس دھوئیں کی لے کر
ختم ہوجائے گا، یہ درد بھی بُجھ جائے گا

درد کچھ دیر ہی رہتا ہے، بہت دیر نہیں

گلزار