خوبی ہے عاقلوں کی تماشا کہیں جسے

 خوبی ہے عاقلوں کی تماشا کہیں جسے

دیوانی کو بھی شور ہے سودا کہیں جسے

قلبِ سلیم وہ ہے کہ دریا کہیں جسے 

  برباد ہے وہ دل وہ کہ صحرا کہیں جسے

ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے 

اک تو ہے اور کون کہ کعبہ کہیں جسے 

خلقِ خدا میں آپ سی تخلیق ہی نہیں

 ہاں ہاں وہ ایک تو ہے کہ آقا کہیں جسے

ہر ایک سو اندھیرے تھے معلوم ہے مجھے

آنا ترا یوں ہے کہ اجالا کہیں جسے

آنکھیں ترس رہی ہیں مگر تو کہاں نہیں 

تیرا ہی تو جلوا ہے کہ پردہ کہیں جسے

  حورانِ خلد میرے بھی حق میں دعا کریں

دوزخ ہے ایک خونِ تمنا کہیں جسے


ہمت کرو جنوں کرو فرہاد ہو اگر

 صاحب کرو وہ چیز کہ تیشہ کہیں جسے

ہمدردی کی زبان میں غیروں کے آسرے

 ایسا بھی تو ہو ایک کہ اپنا کہیں جسے

تیری نظر کے جادو کی دنیا اسیر ہے

وہ بھی تڑپ اٹھے ہیں کہ اڑتا کہیں جسے 

  شہرو تو تیرے عشق میں دیوانی ہو گئی

شہرو وہاں نہیں ہے کہ دنیا کہیں جسے


شہرِ حسن


میں محفل ناز کے انداز بدل ،جاوں گا