رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو



 رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہئیے

کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو

پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار

اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو


مرزا اسداللہ خاں غالب

read more

معلوم ہوا کیسے خزاں آتی ہے گل پر

our