اپنی رسوائی ، تیرے نام کا چرچا دیکھوں



 اپنی رسوائی ، تیرے نام کا چرچا دیکھوں

اِک ذرا شعر کہوں , اور میں کیا کیا دیکھوں

نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں

آنکھ کھُل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں

تو مرا کُچھ نہیں لگتا ھے مگر جانِ حیات 

جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں

بند کر کے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ھنسے

بُوجھے جانے کا , میں ھر روز تماشہ دیکھوں

سب ضِدیں اُس کی میں پوری کروں ، ھر بات سُنوں

ایک بچے کی طرح سے اُسے ھنستا دیکھوں

مُجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح

انگ انگ اپنا , اُسی رُت میں مہکتا دیکھوں

پھُول کی طرح مرے جسم کا , ھر لب کھِل جائے

پنکھڑی پنکھڑی , اُن ھونٹوں کا سایا دیکھوں

میں نے جس لمحے کو پُوجا ھے , اُسے بس اِک بار

خواب بن کر , تری آنکھوں میں اُترتا دیکھوں

تو مری طرح سے یکتا ھے , مگر میرے حبیب

جی میں آتا ھے , کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں

شام بھی ھو گئی , دھُندلا گئیں آنکھیں بھی میری

بھُولنے والے میں کب تک تیرا رستہ دیکھوں 

پروین شاکر

read more

تم عشق کرو اور درد نہ ہو

our