ذرا سی دیر ٹھہر کر سوال کرتے ہیں


 ذرا سی دیر ٹھہر کر سوال کرتے ہیں 

سفر سے آئے ہوؤں کا خیال کرتے ہیں


میں جانتا ہوں مجھے مجھ سے مانگنے والے

 پرائی چیز کا جو لوگ حال کرتے ہیں


وہ دستیاب ہمیں اس لئے نہیں ہوتا 

ہم استفادہ نہیں دیکھ بھال کرتے ہیں


زمانہ ہو گیا حالانکہ دشت چھوڑے ہوئے

 ہمارے تذکرے اب بھی غزال کرتے ہیں


وہ عشق جس کے گنے جا چکے ہیں دن اظہر

 ہم اس چراغ کی سانسیں بحال کرتے ہیں


جناب اظہر فراغ


سارا قصہ سنا چکے ہونگے