بے لطف ہے یہ سوچ کہ سودا نہیں رہا


 بے لطف ہے یہ سوچ کہ سودا نہیں رہا 

آنکھیں نہیں رہیں کہ تماشا نہیں رہا 


دنیا کو راس آ گئیں آتش پرستیاں 

پہلے دماغ لالہ و گل تھا نہیں رہا 


فرصت کہاں کہ سوچ کے کچھ گنگنایئے 

کوئی کہیں ہلاک تمنا نہیں رہا 


اونچی عمارتوں نے تو وحشت خرید لی 

کچھ بچ گئی تو گوشۂ صحرا نہیں رہا 


دل مل گیا تو وہ اتر آیا زمین پر 

آہٹ ملی قدم کی تو رستہ نہیں رہا 


گرداب چیختا ہے کہ دریا اداس ہے 

دریا یہ کہہ رہا ہے کنارا نہیں رہا 


مٹی سے آگ آگ سے گل گل سے آفتاب 

تیرا خیال شہپر تنہا نہیں رہا 


باطل یہ اعتراض کہ تجھ سے لپٹ گیا 

مجھ کو نشے میں ہوش کسی کا نہیں رہا 


اک بار یوں ہی دیکھ لیا تھا خرام ناز 

پھر لب پہ نام سرو و سمن کا نہیں رہا


سید امین اشرف

read mor

سنے گا کب تلک کوئی ہمارے عشق کا قصہ