شب کو دن میں بدل رہا ہوں میں


 غزل


شب کو دن میں بدل رہا ہوں میں


رک گیا ہوں کہ چل رہا ہوں میں



تھام لے گی کبھی تو صبح نئی 


شام سے پہلے ڈھل رہا ہوں میں



دیکھ تو مثلِ کرمکِ شب تاب


اپنی آتش میں جل رہا ہوں میں



زندگی دیکھ تیرے ہاتھوں سے 


ریت جیسا پھسل رہا ہوں میں


 
ڈوبتی عمر ہے نگاہوں میں


اور کنارے پہ چل رہا ہوں میں



خاک ہونے سے کچھ ذرا پہلے


اِن حسینوں کا دل رہا ہوں میں 


محمد اکرام قاسمی

read more

اک نیند کی وادی سے