Thursday, July 28, 2022

دو اشک چار باتیں سنانے لگے مجھے

دو اشک چار باتیں سنانے لگے مجھے

 دو اشک چار باتیں سنانے لگے مجھے 

مدت کے بعد میرے منانے لگے مجھے 


میں ٹوٹتی رہی وہ بنانے لگے مجھے 

اک پل کی زندگی میں زمانے لگے مجھے 


انسان کا مزاج یہ فطرت یہ رنگ بھی 

قدرت بھی تیری تیرے خزانے لگے مجھے 


برسی نہ میرے تن پہ کبھی بوند کرم کی 

اب تو مِرے ہی سائے جلانے لگے مجھے 


میں مانگ تو خدا سے رہی تھی مگر ستم 

رحمت کے در سے لوگ اٹھانے لگے مجھے 


برباد ہو رہے ہیں یاں شہروں میں آدمی 

جنگل کی زندگی میں گھرانے لگے مجھے 


دنیا ترے کمال پرانے لگے مجھے 

یہ کیا مرے خیال میں آنے لگے مجھے 


اک اس طرح سے لوگ جلانے لگے مجھے 

پھر نام تیرا لے کے نچانے لگے مجھے 


بلبل نے چھیڑ دی تھی غزل گل کے پیار میں 

اس وقت میرے نوحے ترانے لگے مجھے 


دو اشک چار باتیں سنانے لگے مجھے 

مدت کے بعد میرے منانے لگے مجھے 


میں ٹوٹتی رہی وہ بنانے لگے مجھے 

اک پل کی زندگی میں زمانے لگے مجھے 


انسان کا مزاج یہ فطرت یہ رنگ بھی 

قدرت بھی تیری تیرے خزانے لگے مجھے 


برسی نہ میرے تن پہ کبھی بوند کرم کی 

اب تو مِرے ہی سائے جلانے لگے مجھے 


میں مانگ تو خدا سے رہی تھی مگر ستم 

رحمت کے در سے لوگ اٹھانے لگے مجھے 


برباد ہو رہے ہیں یاں شہروں میں آدمی 

جنگل کی زندگی میں گھرانے لگے مجھے 


دنیا ترے کمال پرانے لگے مجھے 

یہ کیا مرے خیال میں آنے لگے مجھے 


اک اس طرح سے لوگ جلانے لگے 

پھر نام تیرا لے کے نچانے لگے مجھے 


بلبل نے چھیڑ دی جوں غزل گل کے پیار میں

اس وقت میرے نوحے ترانے لگے مجھے 


شہرِ حسن

No comments:

Post a Comment