دو اشک چار باتیں سنانے لگے مجھے

 دو اشک چار باتیں سنانے لگے مجھے 

مدت کے بعد میرے منانے لگے مجھے 


میں ٹوٹتی رہی وہ بنانے لگے مجھے 

اک پل کی زندگی میں زمانے لگے مجھے 


انسان کا مزاج یہ فطرت یہ رنگ بھی 

قدرت بھی تیری تیرے خزانے لگے مجھے 


برسی نہ میرے تن پہ کبھی بوند کرم کی 

اب تو مِرے ہی سائے جلانے لگے مجھے 


میں مانگ تو خدا سے رہی تھی مگر ستم 

رحمت کے در سے لوگ اٹھانے لگے مجھے 


برباد ہو رہے ہیں یاں شہروں میں آدمی 

جنگل کی زندگی میں گھرانے لگے مجھے 


دنیا ترے کمال پرانے لگے مجھے 

یہ کیا مرے خیال میں آنے لگے مجھے 


اک اس طرح سے لوگ جلانے لگے مجھے 

پھر نام تیرا لے کے نچانے لگے مجھے 


بلبل نے چھیڑ دی تھی غزل گل کے پیار میں 

اس وقت میرے نوحے ترانے لگے مجھے 


دو اشک چار باتیں سنانے لگے مجھے 

مدت کے بعد میرے منانے لگے مجھے 


میں ٹوٹتی رہی وہ بنانے لگے مجھے 

اک پل کی زندگی میں زمانے لگے مجھے 


انسان کا مزاج یہ فطرت یہ رنگ بھی 

قدرت بھی تیری تیرے خزانے لگے مجھے 


برسی نہ میرے تن پہ کبھی بوند کرم کی 

اب تو مِرے ہی سائے جلانے لگے مجھے 


میں مانگ تو خدا سے رہی تھی مگر ستم 

رحمت کے در سے لوگ اٹھانے لگے مجھے 


برباد ہو رہے ہیں یاں شہروں میں آدمی 

جنگل کی زندگی میں گھرانے لگے مجھے 


دنیا ترے کمال پرانے لگے مجھے 

یہ کیا مرے خیال میں آنے لگے مجھے 


اک اس طرح سے لوگ جلانے لگے 

پھر نام تیرا لے کے نچانے لگے مجھے 


بلبل نے چھیڑ دی جوں غزل گل کے پیار میں

اس وقت میرے نوحے ترانے لگے مجھے 


شہرِ حسن