Wednesday, July 27, 2022

آرزوۓ وصال کیا کرتے

آرزوۓ وصال کیا کرتے

 آرزوۓ وصال کیا کرتے 


بجھے بجھتے اجال کیا کرتے 


ایک کوزے میں لے کے دریا کو 


تشنگاں بھی کمال کیا کرتے 


آپ تو آپ میں نہیں ہوتے 


آپ میری سنبھال کیا کرتے


دیکھ روشن ہے داغِ دل میرا 


تجھے دل سے نکال کیا کرتے 


وقتِ آخر سوال کیا کرتے 


خوں ہوا میں اچھال کیا کرتے 


جاے غیرت ملال کیا کرتے 


ہاں جی غیروں سے حال کیا کرتے 


خود تو نکلے نہیں اندھیروں سے 


میرے دل میں اجال کیا کرتے 


میں خودی میں جلال کرتی ہوں 


آپ ایسا کمال کیا کرتے ؟ 


ہمیں کی ہے دھمال سورج پر 


اور قائم مثال کیا کرتے 


جس سے اس خون میں نشہ سا ہے 


اسے دل سے نکال کیا کرتے 


زندگی یوں بھی ووں بھی کٹتی ہے 


زندگی کا ملال کیا کرتے 


زندگی سے جِدال کیا کرتے 


مرنے والے مجال کیا کرتے 


وہ جسے نیند مار ڈالے ہے 


جاگ کے وہ کمال کیا کرتے ؟ 


تم نہ آنکھوں سے مے پلاتے تو 


تیرے مے کش جلال کیا کرتے 


شہرِ حسن

No comments:

Post a Comment