آرزوۓ وصال کیا کرتے

 آرزوۓ وصال کیا کرتے 


بجھے بجھتے اجال کیا کرتے 


ایک کوزے میں لے کے دریا کو 


تشنگاں بھی کمال کیا کرتے 


آپ تو آپ میں نہیں ہوتے 


آپ میری سنبھال کیا کرتے


دیکھ روشن ہے داغِ دل میرا 


تجھے دل سے نکال کیا کرتے 


وقتِ آخر سوال کیا کرتے 


خوں ہوا میں اچھال کیا کرتے 


جاے غیرت ملال کیا کرتے 


ہاں جی غیروں سے حال کیا کرتے 


خود تو نکلے نہیں اندھیروں سے 


میرے دل میں اجال کیا کرتے 


میں خودی میں جلال کرتی ہوں 


آپ ایسا کمال کیا کرتے ؟ 


ہمیں کی ہے دھمال سورج پر 


اور قائم مثال کیا کرتے 


جس سے اس خون میں نشہ سا ہے 


اسے دل سے نکال کیا کرتے 


زندگی یوں بھی ووں بھی کٹتی ہے 


زندگی کا ملال کیا کرتے 


زندگی سے جِدال کیا کرتے 


مرنے والے مجال کیا کرتے 


وہ جسے نیند مار ڈالے ہے 


جاگ کے وہ کمال کیا کرتے ؟ 


تم نہ آنکھوں سے مے پلاتے تو 


تیرے مے کش جلال کیا کرتے 


شہرِ حسن