میرے بے ربط خیالات میں کیا رکھا ہے

 میرے بے ربط خیالات میں کیا رکھا ہے 

میں تو پاگل ہوں میری بات میں کیا رکھا ہے 


باندھ رکھا ہے تیری یاد نے ماضی سے مجھے 

ورنہ گزرے ہوئے لمحات میں کیا رکھا ہے 


میری تکمیل تیری ذات سے ہی ممکن ہے 

تو الگ ہو تو میری ذات میں کیا رکھا ہے 


یہ شب و روز تیرے دم سے ہی تابندہ ہے 

ورنہ ان گردش حالات میں کیا رکھا ہے


سلمان ساحل