لڑی سی اشکوں کی پلکوں پہ سُرمئی کیا تھی


 لڑی سی اشکوں کی پلکوں پہ سُرمئی کیا تھی


حَسِین آنکھوں میں اک ڈور قُرمزی کیا تھی


اَخِیر تک یہ معمّہ سمجھ نہیں پایا


کہ ایک خواب تھی دھوکہ تھی زندگی کیا تھی


جُدا ہوا تھا خموشی سے اس قدر وہ بھی


ہمیں تو یاد نہیں بات آخری کیا تھی 


چلو یہ مان لیا ہم سمجھ سکے نہ کبھی 


بتائیں آپ کہ مرضی پھر آپ کی کیا تھی۔۔؟


عجب مقام پہ لائیں محبتیں مجھکو


بس ایک نور تھا ہر سمت روشنی کیا تھی 


اگر میں شعر نہ کہتا تو مر گیا ہوتا


غُبارِ دل تھا میرا اور شاعری کیا تھی ۔۔


وہ اک ٹرین کے انجن کی آخری سیٹی


جو تیرے گاؤں سے گزری تو چیختی کیا تھی 


اگر وہ چاند نہ اُترا تھا گھر میں پچھلی شب


کھنک سی کانوں میں عیش وہ نقرئی کیا تھی


read more
our