اے چاند کربلا کے تو نے تو دیکھے ہونگے

 اے چاند کربلا کے تو نے تو دیکھے ہونگے

اُترے تھے اِس زمیں پر عرش بریں کے تارے


* اے چاند اِس زمیں پر رکھیو ہمیشہ ٹھنڈک

سوتے ہیں جو یہاں پر زھراء کے ہیں وہ پیارے 


اے چاند کربلا کے تو نے تو دیکھے ہونگے ۔۔۔


تسنیم وسلسبیل و کوثر کے ہیں یہ مالک

مارے گئے جو پیاسے اِس نہر کے کنارے 


اے چاند کربلا کے تو نے تو دیکھے ہونگے۔۔۔


حر اور حبیب جیسے جانباز اور احبا

مارے گئے یہاں پر انثار شاہِ دیں کے


اے چاند تو نے تو دیکھے ہونگے۔۔


مارے گئے یہیں پر، بے دردی و ستم سے

مسلم کے دونوں پیارے، زینب کے دونوں بیٹے


اے چاند کربلا کے تو نے تو دیکھے ہونگے۔۔


اس بند میں ایک بچی بابا کو ڈھوڈتی ہے

بکھرے ہوئے پڑے تھے، جب سربریدہ لاشیں،


اے چاند کربلا کے تو نے تو دیکھے ہونگے۔۔۔


پامال ہورہی تھی، قاسم کی لاش رن میں،

عباس (ع) اور سرور (ع) چنتے تھے انکے ٹکڑے


اے چاند کربلا کے تو نے تو دیکھے ہونگے اترے تھے اس زمیں پر عرش بریں کے تارے 


 شہزادہ جناں ہی مالک ہے کربلا کا

کس کی مجال آئے جب تک نا وہ بلائے

پہنچے ہیں کربلا میں جو لوگ سبطِ جعفر (رہ)

 اے کاش پھر مقدَّر اُن کو یہ دن دکھائے (آمین)


اے چاند کربلا کے تو نے تو دیکھے ہونگے اترے تھے اس زمیں پر عرش بریں کے تارے


 شہید استاد سبطِ جعفر