یہ سوز اندروں تا کہ،یہ چشم خونفشاں کب تک

 


یہ سوز اندروں تا کہ،یہ چشم خونفشاں کب تک

کسی کے عشق میں سحر،رہو گے خستہ حال کب تک


یہ زمین،صحن گلستاں پر،رہے گا آسمان کب تک

یونہی گرتے رہیں گی،بجلیوں پر بجلیاں کب تک


وہی افسانہ غم ہے،وہی روئیداد الفت

ھر ایک سے ہم ،سنتے جائیں گے داستاں کب تک


یہ شوق وصل،اور یہ خوف رسوائی،قیامت ہے

رہیں گے یہ فاصلے،میرے تیرے درمیان کب تک


کبھی تو ناوک گفتار چھوٹے،ٹوٹے خاموشی

یونہی کھنچتی رہے گی،تیری چتوں کی کماں کب تک


میری توبہ کے آنسو،مئے کے بدلے،ڈھال دے ساقی

رہے گا منتظر آخر ہجوم،میکشاں کب تک


بگوش ہوش،اب پیری کی تم دستک،سنوباے سحر

طبیعت کی یہ شوخی،اور یہ جولانیاں کب تک۔۔۔۔سحر

Ye akhiri shamien bhi bujhane ke liye aa