خالی خالی سی وہاں صبح کی جھولی ہوگی

غزل

خالی خالی سی وہاں صبح کی جھولی ہوگی

رات بھی ساتھ ہی تیرے کہیں ہَو لی ہوگی

آسماں پر تیرے ہونٹوں کے نشاں سے ہوں گے

نیلگوں عکس نے مَے سی کوئی گھولی ہوگی

ابر جھکتے ہی در و بام پہ جل تھل ہوگا

دیکھنے چھت پہ تجھے رنگوں کی ٹولی ہوگی

سبزہ مہکا ہُوا ہوگا تیرے آنگن کے قریب

شورشِ گُل میں تُو آہستہ سے بولی ہوگی

جھانکتا ہوگا کسی چھت سے مرا پاگل پن

اور کوچے میں ترے بیاہ کی ڈولی ہوگی

آج کے دن ہے کسی خوابِ حِنا کی رخصت

آج کے دن تو یہاں خون کی ہَولی ہو گی

چھپتے پھرتے ہیں شبِ قہر سے اب شہر کے لوگ

کیا کریں اب تو یہی آنکھ مچولی ہوگی

اپنے اٹھنے پہ بھی وہ باغ تو ویسا ہی رہا

ہم تو سمجھے تھے کہ کوئل بھی نہ بولی ہوگی

اے رہِ عمر سے منہ موڑ کے جانے والے

آنکھ تُو نے کسی دنیا میں تو کھولی ہوگی

اک ذرا جا کے نوید اپنی خبر لے آؤں

اُس نے گلیوں میں مری خاک تو رولی ہوگی


افضال نوید

read more

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو

our

​sunā hai log use aañkh bhar ke dekhte haiñ