غزل صد خواب لئے آنکھ یہ بےخواب بہت ہے اور دل بھی شبِ وصل میں بے تاب بہت ہے ہے نغمۂ ہستی کو اگر ساز کی حاجت پھر اس کے لئے درد کا مضراب بہت ہے یہ کشتِ وفا ہو گئی ویران تو کیا غم اک زخم کا گلشن ہے کہ …
وہ رستے ترک کرتا ہوں ، وہ منزل چھوڑ دیتا ہوں جہاں عزت نہیں ملتی ، وہ محفل چھوڑ دیتا ہوں کناروں سے اگر میری خُودی کو ٹھیس پہنچے تو بھنور میں ڈوب جاتا ہوں، وہ ساحل چھوڑ دیتا ہوں مجھے مانگے ہوئے سائے ہ…
کیا کہیے کیا رکھیں ہیں ہم تجھ سے یار خواہش یک جان و صد تمنا، یک دل ہزار خواہش لے ہاتھ میں قفس ٹک صیاد چل چمن تک مدت سے ہے ہمیں بھی سیر بہار خواہش نے کچھ گنہ ہے دل کا نے جرم چشم اس میں رکھتی ہے …
گھنگرو پہ بات کر نہ تو پائل پہ بات کر مجھ سےطوائفوں کےمسائل پہ بات کر فٹ پاتھ پر پڑا ہوا دیوان میر دیکھ ردی میں بکنےوالےرسائل پہ بات کر اس میں بھی اجر ہے نہاں ، نفلی نماز کا مسجد میں بھیک مانگت…
ٹُوٹنے پر کوئی آئے تو پھر ایسا ٹُوٹے کہ جِسے دیکھ کے ہر دیکھنے والا ٹُوٹے تُو اِسے کس کے بھروسے پہ نہیں کات رہی چرخ کو دیکھنے والی ترا چرخہ ٹُوٹے اپنے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو سمیٹے کب تک …
Social Plugin