دنیائے بود و ہست سے آگے نکل گئے

 غزل


حسین ثاقب


 دنیائے بود و ہست سے آگے نکل گئے

ہم خود حصارِ وقت سے آگے نکل گئے


جو عہدِ تیرہ بخت سے آگے نکل گئے

وہ سب بلند و پست سے آگے نکل گئے


جن کو ہے نظمِ دہر بدلنے کی آرزو

اندیشۂ شکست سے آگے نکل گئے


اپنی انا کے عشق میں محو اس قدر ہوئے

محبوبِ خود پرست سے آگے نکل گئے


جن کی نظر تھی عالمِ امکاں سے ماوراء

وہ ہر کشاد و بست سے آگے نکل گئے


اہلِ جہاں کی فکر تھی مہمیز اس قدر

اس فکرِ چیرہ دست سے آگے نکل گئے