بجھے چراغ جلانے میں دیر لگتی ہے

 بجھے چراغ جلانے میں دیر لگتی ہے

نصیب اپنا بنانے میں دیر لگتی ہے


وطن سے دور مسافر چلے تو جاتے ہیں

وطن کو لوٹ کے آنے میں دیر لگتی ہے


تعلقات تو اک پل میں ٹوٹ جاتے ہیں

کسی کو دل سے بھلانے میں دیر لگتی ہے


بکھر تو جاتے ہیں پل بھر میں دل کے سب ٹکڑے

مگر یہ ٹکڑے اٹھانے میں دیر لگتی ہے


یہ ان کی یاد کی خوشبو بھی کیسی ہے خوشبو

چلی تو آتی ہے جانے میں دیر لگتی ہے


وہ ضد بھی ساتھ میں لاتے ہیں جانے جانے کی

یہ اور بات کہ آنے میں دیر لگتی ہے


یہ گھونسلے ہیں پرندوں کے ان کو مت توڑو

انہیں دوبارہ بنانے میں دیر لگتی ہے


وہ دور عشق کی رنگیں حسین یادوں کے

نقوش دل سے مٹانے میں دیر لگتی ہے


یہ داغ ترک مراسم نہ دیجئے ہم کو

جگر کے داغ مٹانے میں دیر لگتی ہے


خبر بھی ہے تجھے دل کو اجاڑنے والے

دلوں کی بستی بسانے میں دیر لگتی ہے


تمہیں قسم ہے بجھاؤ نہ پیار کی شمعیں

انہیں بجھا کے جلانے میں دیر لگتی ہے


بھلاؤں کیسے اچانک کسی کا کھو جانا

یہ حادثات بھلانے میں دیر لگتی ہے


ذرا سی بات پہ ہم سے جو روٹھ جاتے ہیں

انہیں تو سوزؔ منانے میں دیر لگتی ہے