بکھر رہی ہے میری ذات ، اسے کہہ دینا

 غزل

بکھر رہی ہے میری ذات ، اسے کہہ دینا 

کہیں ملے وہ ، تو یہ بات اسے کہہ دینا 


اسے یہ کہنا کہ بن اس کے دن نہیں کٹتا 

سسک کے کٹتی ہے ہر رات اسے کہہ دینا 


وہ ساتھ تھا تو زمانہ تھا ہمسفر میرا 

مگر اب کوئی نہیں ساتھ اسے کہہ دینا 


گنوا کے پیار میں خود کو ہی ہم تو بیٹھ گئے 

کڑے ہیں عشق کے لمحات اسے کہہ دینا

 
وہ جس کو سن کے پلٹ آے میری دنیا میں 

ہواؤں۔۔۔۔ ایسی کوئی بات اسے کہہ دینا 


اگر وہ پھر بھی نہ آئے تو مہرباں قاصد 

ہماری زیست کے حالات اسے کہہ دینا 


ہر ایک جیت اس کے نام کر رہا ہوں میں 

میں مانتا ہوں اپنی مات اسے کہہ دینا 


اسے پکاروں یا خود پہنچ جاؤں اس کے پاس 

رہے کب بس میں یہ حالات اسے کہہ دینا 


برس برس کے نگاہیں بھی ہو گئی پتھر 

پڑی ہے غم کی عجب رات اسے کہہ دینا 


وہ دن کہاں کہ زمانے کی خوشبوئیں ہوں میری 

ہیں اب تو خالی ، میرے ہاتھ اسے کہہ دینا

read more

تُم اُسے بس میری آنکھوں کا حوالہ دینا

our