جلوہ بے مایہ سا تھا چشم و نظر سے پہلے

 

جلوہ بے مایہ سا تھا چشم و نظر سے پہلے

زیست اک حادثہ تھی قلب و جگر سے پہلے

حسن کے سوز نمائش کا ہے انعام حیات

وقت بھی وقت نہ تھا شمس و قمر سے پہلے

وحی اتری دل بے تاب کی تشکیل کے بعد

عشق تعمیر ہوا علم و ہنر سے پہلے

عین فردوس میں جل اٹھا تھا آدم کا شباب

آگ برسی تھی یہیں دیدۂ تر سے پہلے

پھر کہیں دل کے سوا ان کو اماں ہی نہ ملی

بت نکالے گئے اللہ کے گھر سے پہلے

زندگی مزرع تکلیف و سکوں ہے افضلؔ

شام اگتی ہے یہاں نور سحر سے پہلے


شیر افضل جعفری 

read more 

مُجھے شَکل دَے کے تَمام کر کَفِ کُوزَہ گَر