Friday, June 9, 2023

کیا دن مجھے عشق نے دکھائے

 

کیا دن مجھے عشق نے دکھائے

کیا دن مجھے عشق نے دکھائے


اِک بار جو آئے پھر نہ آئے


اُس پیکرِ ناز کا فسانہ


دل ہوش میں آۓ تو سُنائے


وہ روحِ خیال و جانِ مضموں


دل اس کو کہاں سے ڈھونڈھ لائے


آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر


عارض کہ شراب تھرتھرائے


مہکی ہوئ سانس نرم گفتار


ہر ایک روش پہ گل کھلائے


راہوں پہ ادا ادا سے رقصاں


آنچل میں حیا سے منہ چھپائے


اُڑتی ہوئ زلف یوں پریشاں


جیسے کوئی راہ بھول جائے


کچھ پھول برس پڑے زمیں پر


کچ8ھ گیت ہوا میں لہلہائے


ناصر کاظمی

read more

our



No comments:

Post a Comment