ہم جو ہر بار تیری بات میں آجاتے ہیں


 ہم جو ہر بار تیری بات میں آجاتے ہیں 


گھوم پھر کر اسی اوقات میں آجاتے ہیں 


جب اسے باقی نہیں رہتی ضرورت میری


درجنوں عیب میری ذات میں آجاتے ہیں 


جا پہنچتے ہیں جہاں رزق بلاتا ہے ہمیں 


گھر سے چلتے ہیں مضافات میں آجاتے ہیں 


ہجر کے دن تو عموما بھی نہیں ہیں آساں


اور مجھ پر یہی برسات میں آجاتے ہیں 


ہم ستارے ہیں میسر نہیں آتے دن میں 


عشق ذادوں کے لئیے رات میں آجاتے ہیں 


 وہ ہاتھ کیا  ہاتھ میں آتا ہے میرے 


سارے حالات میرے ہاتھ میں آجاتے ہیں

 
نعیم عباس ساجد

read more
our