Sunday, July 30, 2023

اور اس دل میں کیا رکھا ہے

 

اور اس دل میں کیا رکھا ہے

اور اس دل میں کیا رکھا ہے


تیرا ہی درد چھپا رکھا ہے


اتنے دکھوں کی تیز ہوا میں


دل کا دیپ جلا رکھا ہے


دھوپ سے چہروں نے دنیا

 میں


کیا اندھیر مچا رکھا ہے


اس نگری کے کچھ لوگوں نے


دکھ کا نام دوا رکھا ہے


وعدۂ یار کی بات نہ چھیڑو


یہ دھوکا بھی کھا رکھا ہے


بھول بھی جاؤ بیتی باتیں


ان باتوں میں کیا رکھا ہے


چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصر


یہ کیا روگ لگا رکھا ہے


دیوان ناصر کاظمی

Read more 

دِلِ گمشدہ! کبھی مل ذراکسی

Our 

چلو وہ عشق نہیں چاہنے کی عادت ہے


No comments:

Post a Comment