Tuesday, November 5, 2024

مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا

 مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا

مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا

 

مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا


یہ نہ تھا تو کاش دِل پر مُجھے اختیار ہوتا 


پسِ مرگ کاش یونہى مُجھے وصلِ یار ہوتا


وہ سرِ مزار ہوتا میں تہہِ مزار ہوتا


جو نِگاہ کى تھى ظالم تو پِھر آنکھ کیوں چُرائ 


وُہى تِیر کیوں نہ مارا جو جِگر کے پار ہوتا


وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یا رب 


میرے دونوں پہلووں میں دل بےقرار ہوتا 


میں زباں سے تُم کو سچا کہو لاکھ بار کہہ دوں


اِسے کیا کروں کے دِل کو نہیں اعتبار ہوتا


مرى خاک بھى لحد میں نہ رہى امیر باقى 


اُنہیں مرنے کا ہى اب تک نہیں اعتبار ہوتا 



امیر مینائ

semore

اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں


اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں


اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں


اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں


پھر کوئی کم بخت کشتی نذر طوفاں ہو گئی


ورنہ ساحل پر اداسی اس قدر ہوتی نہیں


تیرا انداز تغافل ہے جنوں میں آج کل


چاک کر لیتا ہوں دامن اور خبر ہوتی نہیں


ہائے کس عالم میں چھوڑا ہے تمہارے غم نے ساتھ


جب قضا بھی زندگی کی چارہ گر ہوتی نہیں


رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب


چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں


اضطراب دل سے قابلؔ وہ نگاہ بے نیاز


بے خبر معلوم ہوتی ہے مگر ہوتی نہیں


رستے میں بن کے پیار کا دریا کھڑ



اقابل اجمیری

semore

میں نے سنا ہے کہ لوگ اسے کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔



 

Sunday, November 3, 2024

آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں

آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں



 آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں 


اے جان سخن میں تیرا چہرہ بھی تو دیکھوں 


دستک تو کچھ ایسی ہے کہ دل چھونے لگی ہے 


اس حبس میں بارش کا یہ جھونکا بھی تو دیکھوں 


صحرا کی طرح رہتے ہوئے تھک گئیں آنکھیں 


دکھ کہتا ہے میں اب کوئی دریا بھی تو دیکھوں 


یہ کیا کہ وہ جب چاہے مجھے چھین لے مجھ سے 


اپنے لئے وہ شخص تڑپتا بھی تو دیکھوں 


اب تک تو مرے شعر حوالہ رہے تیرا 


اب میں تری رسوائی کا چرچا بھی تو دیکھوں 


اب تک جو سراب آئے تھے انجانے میں آئے 


پہچانے ہوئے رستوں کا دھوکا بھی تو دیکھوں


پروین شاکر


Raed more 

Saturday, November 2, 2024

تسکین جو دل کی تمہیں کرنا نہیں آتا

تسکین جو دل کی تمہیں کرنا نہیں آتا



 تسکین جو دل کی تمہیں کرنا نہیں آتا 


دل کو بھی مری جان ٹھہرنا نہیں آتا


مٹھی میں دبا کر دلِ مضطر کو وہ بولے


ہاں اب تو کہے مجھ کو ٹھہرنا نہیں آتا


اک نقش تمہارا ہے کہ وہ دل میں جما ہے


اک تم ہو کہ پہلو میں ٹھہرنا نہیں آتا


ڈر ہم کو ہے بدنام نہ دشمن ہوں تمہارے


تم کہتے ہو عُشاق کو مرنا نہیں آتا


مہندی کی جگہ مَلتے ہیں خُونِ دلِ عُشاق


کم سن ہیں ابھی انکو سنورنا نہیں آتا


دل لے میرا مجھ سے ابھی،  کر گئے انکار


پھر آپ کہیں گے کہ مُکرنا نہیں آتا


کہیے تو ابھی لیلے وہ چُٹکی مرے دل میں 


ہاتھ اسکو مگر سینے پہ دھرنا نہیں آتا 


سُن لو جو کسی روز تو کُھل جائے یہ تم پر 


آتا ہے مجھے نالہ کہ کرنا نہیں آتا


چلتے ہو جو کرتے ہوئے پامال دلوں کو 


کیا پاؤں زمیں پر تمہیں دھرنا نہیں آتا


کی موت نہ آنے کی شکایت تو وہ بولے


"ہاں ایسے ہو بھولے تمہیں مرنا نہیں آتا


اللہ تری زلف کے سودے سے بچائے


وہ جن ہے جسے چڑھ کے اُترنا نہیں آتا


چہرے پہ نہ غازہ ہے نہ بالوں میں ہے افشاں


یہ جھگڑے بھرا ان کو سنورنا نہیں آتا 


آنکھوں میں سما جائیں وہ دل میں اتر آئیں


کوٹھے سے جلیلؔ ان کو اترنا نہیں آتا



حافظ جلیل حسن جلیلؔ مانکپوری

semore