اگر آلامِ ہجراں کم نہ ہوں گے


غزل

اگر آلامِ ہجراں کم نہ ہوں گے


یہی ہو گا کہ اِک دن، ہم نہ ہوں گے



جئیں گے کِس طرح اہلِ محبّت


اگر اُن کے ستم پَیہم نہ ہوں گے



چراغاں ہو گا صحنِ گُلستاں میں


بہاریں ہوں گی، لیکن ہم نہ ہوں گے



کِیا ہے خُونِ دل سے جِن کو روشن


وہ یادِوں کے دئیے مدّھم نہ ہوں گے



ستاۓ گی ہماری یاد اُن کو


مگر بزمِ جہاں، میں ہم نہ ہوں گے




تیرا قامت اُٹھائے گا جو فِتنے


قیامت سے وہ فِتنے کم نہ ہوں گ



یہی صُورت رہی تو دیکھ لینا


کبھی اِک دوسرے کے ہم نہ ہوں گے




کہاں زندانیوں کا پھر ٹھکانہ


اگر اُن گیسوؤں کے خَم نہ ہوں گے




نہ چُھوٹے اے نصیرؔ! اب یار کا غم


یہ غم چُھوٹا تو کیا کیا غم نہ ہوں گے 


 پیرسیّدنصیرالدّین نصیرؔ گیلانی

read more

بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے

our