اک وہاں عشق میں نصرت ہے مجھے


 اک وہاں عشق میں نصرت ہے مجھے


اک یہاں حُسن میں قدرت ہے مجھے

 


عشق والوں سے عقیدت ہے مجھے 


عشق ہی عشق حقیقت ہے مجھے 



میں نے انساں سے محبت کی ہے 


یہ محبت ہی ولایت ہے مجھے 



مجھ کو اقرارِ محبت ہے میاں 


ہاں محبت ہے محبت ہے مجھے 



تیری بانہوں میں جو یہ دم نکلے 


قسم اللہ کی شہادت ہے مجھے 



فرصتیں امتحاں در امتحاں ہیں 


پوچھ کا دن ہی قیامت ہے مجھے 



لاکھ دنیا نے بلائیں کی ہیں 


کرم کی تیرے حفاظت ہے مجھے 



میں اسی فن میں ہوں شمشیرِ سخن 


میر و غالب کی حمایت ہے مجھے 



لوگ کہتے ہیں محبت ہے تجھے 


میں کہُوں ناں جی ناں وحشت ہے مجھے

 


اے ابھی یاد ہے تیری مجھ کو


اے  ابھی  خود سے بھی وحشت ہے مجھے 



عالمِ عشق میں دیوانی ہوں 


دنیاے ہوش  میں  حکمت ہے مجھے 

چپ چاپ ہی ہر رت میں