اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے​


اے جذبۂ دل گر میں چاہوں 

ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں

 اور سامنے منزل آ جائ
کشتی کو خدا پر چھوڑ بھی

 دے کشتی کا خدا خود حافظ 
مشکل تو نہیں ان موجوں

 میں بہتا ہوا ساحل آ جائ
اے شمع قسم پروانوں کی

 اتنا تو مری خاطر کرنا​
اس وقت بھڑک کر گل ہونا

 جب بانی محفل آ جائے​
اس جذبۂ دل کے بارے میں 

اک مشورہ تم سے لیتا ہوں​
اس وقت مجھے کیا لازم ہے

 جب تم پہ مرا دل آ جائے​
ہاں یاد مجھے تم کر لینا

 آواز مجھے تم دے لینا​
اس راہ محبت میں کوئی 

درپیش جو مشکل آ جائے​

اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشم کرم

 ہونے دے ستم بالائے ستم

میں چاہتا ہوں اے جذبۂ غم مشکل پس مشکل آ جائے

اے دل کی لگی چل یونہی سہی

 چلتا تو ہوں ان کی محفل میں​ 

اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے 

بہزاد لکھنوی


 

read more

 

اہل خرز نہ آج تک،ڈھونڈ سکے نہ جواز عشق

our