سنا ہے کھل گئےتھے ، ان کے گیسو سیرگلشن میں


 سنا ہے کھل گئےتھے ، ان کے گیسو سیرگلشن میں 

صبا تیرا  برا  ہو  ، تو نے مجھ کو بے خبر رکھا

نہ تُم آۓ شبِ وعدہ، پریشاں رات بھر رکھّا

دِیا اُمّید کا میں نے جلا کر تا سحر رکھّا

وہی دِل چھوڑ کر مجھ کو کسی کا ہو گیا آخر

جسے نازوں سے پالا، جس کو ارمانوں سے گھر رکھّا

جبیں کو مل گئ منزل، مذاقِ بندگی اُبھرا

جنوں میں ڈوب کر جس دم تری چوکھٹ پہ سر رکھّا

کہاں ہر ایک تیرے درد کی خیرات کے لائق

کرم تیرا کہ تُو نے مجھ کو بربادِ نظر رکھّا

غمِ دُنیا و مافیھا کو رُخصت کر دیا میں نے

ترا غم تھا جسے دل سے لگاۓ عُمر بھر رکھّا

سنا ہے کُھل گئے تھے اُن کے گیسو سیر گُلشن میں

صبا تیرا بُرا ہو تو نے مجھ کو بے خبر رکھّا

یہ اُسکے فیصلے ہیں جسکے حق میں جوبھی کر ڈالے

کسی کو دَر دِیا اپنا، کسی کو در بدر رکھّا

کبھی گزریں تو شاید دیکھ لوں میں اِک جھلک اُنکی

اِسی اُمیّد پر مدفن قریبِ راہ گُزر رکھّا

بھری محفل میں نا حق راز اُلفت کر دیا اِفشا

محبت کا بھرم تو نے نہ کچھ اے چشمِ تر! رکھّا

جو خط اوروں کے آۓ، اُس نے دیکھے دیر تک، لیکن

مرا خط ہاتھ میں لے کر اِدھر دیکھا اُدھر رکھّا

کوئی اُس طائر مجبور کی بے چارگی دیکھے

قفس میں بھی جسے صیّاد نے بے بال و پر رکھّا

یہ ممکن تھا ہم آ جاتے خرد مندوں کی باتوں میں

خوشا قسمت کہ فطرت نے ہمیں آشفتہ سر رکھّا

سر آنکھوں پر جسے اپنے بٹھایا عُمر بھر ہم نے

اُسی ظالم نے نظروں سے گرا کر عُمر بھر رکھّا

کہاں جا کر بھلا یوں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے

نصیرؔ اچھّا کیا تم نے ہمیشہ ایک در رکھّا

عنایت ہے یہ تجھ پر اے نصیرؔ اُستادِ فطرت کی

کہ جو بھی لفظ رکھّا شعر میں، مثلِ گہر رکھّا

 

نصیرالدین نصیر

read more

 

نام لے لے کے ترا لوگ بُلاتے ہیں مجھے

our