Monday, August 1, 2022

محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا

محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا

 

محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا

جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا 


جلائے رکھوں گی صبح تک میں تمہارے رستوں میں اپنی آنکھیں 

مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائے تو بارشیں بھی شمار کرنا 


جو حرف لوح وفا پہ لکھے ہوئے ہیں ان کو بھی دیکھ لینا 

جو رائیگاں ہو گئیں وہ ساری عبارتیں بھی شمار کرنا 


یہ سردیوں کا اداس موسم کہ دھڑکنیں برف ہو گئی ہیں 

جب ان کی یخ بستگی پرکھنا تمازتیں بھی شمار کرنا 


تم اپنی مجبوریوں کے قصے ضرور لکھنا وضاحتوں سے 

جو میری آنکھوں میں جل بجھی ہیں وہ خواہشیں بھی شمار کرنا 


نوشی گیلانی




Mohabbat Ka Naam De Kar


پھر گفتگو میں آ گئے پُرکھوں کے عمامے

پھر گفتگو میں آ گئے پُرکھوں کے عمامے

 

پھر گفتگو میں آ گئے پُرکھوں کے عمامے

میں چاہتا یہ تھا تیرے گھونگٹ پہ بات ہو







میں وہاں تک اچھی ہوں

میں وہاں تک اچھی ہوں

 

میں وہاں تک اچھی ہوں

جہاں تک آپ اوقات نہ بھولیں







وہ مُجھے بُھول گئی، میں نہیں


جی اٹھے،غم کو سنبھالے جانان

جی اٹھے،غم کو سنبھالے جانان

 جی اٹھے،غم کو سنبھالے جانان

ہم تیرے چاھنے والے ہین جانان


جب سے راس، اییےاندھیرے مجھکو

تب سے ڈستے ہین، اجالے مجھکو


جتنی چاھت سے، ہم بلاتے ہین

تو بھی اک بار، بلالے ہمکو جاناں


زندگی تیرے حوالے، ھم نے کردی

اب اسے کھو، یا بچالے جاناں


در بدر ڈھونڈتے، پھرتے ہین سحر

پڑگئے پاون مین چھالے،جاناں


 اندھیرے مجھکو






میں پیامبر نہ سہی تیرا لیکن

میں پیامبر نہ سہی تیرا لیکن

 

میں پیامبر نہ سہی تیرا لیکن

مُجھ سے بھی بات کر خُدا میرے





ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں



واری متاعِ جان ہزاروں نے دین پر

واری متاعِ جان ہزاروں نے دین پر

 واری متاعِ جان ہزاروں نے دین پر

لیکن میرے حُسینؓ سا پیدا نہیں ہوا


(حاویؔ مومن آبادی)

کسی کلی نے بھی نہ دیکھا،آنکھ بھر کے مجھے

کسی کلی نے بھی نہ دیکھا،آنکھ بھر کے مجھے

 

کسی کلی نے بھی نہ دیکھا،آنکھ بھر کے مجھے

گزر کئی جرس گل،اداس کر کے مجھے


میں سو رھا تھا،کسی یاد کی شبستاں میں

 نیں جگا کے چھوڑ گئے،قافکے سحر کے مجھے


میں تیرے درد کی طغیانیوں ،میں ڈوب گیا 

پکارت رہے تارے ابھر کے مجھے


تیرے فراق کی راتین،کبھی نہ بھولیں گی

مزے ملے انہیں راتوں میں،عمر بھر کے مجھے


ذرا سی دیر ٹھرنے دے،اے غم دنیا مجھے

بلا رھا ہے کوئی،بام سے۔ اتر کے مجھے







لالہ گل کے جو سامان،بہم ھو جاتے ہیں

لالہ گل کے جو سامان،بہم ھو جاتے ہیں

 

لالہ گل کے جو سامان،بہم ھو جاتے ہیں

فاصلے دشت و چمن زار،میں کم ھو جاتے ہیں


ھم نے ھر غم سے نکھاریںہیں،تیری یادیں

ھم کوئی تم تھے،کہ وابستہ غم ھو جاتےے


خود کو کھویا تو نہیں،تم کو پایا نہ سہی

تم کو گر پاتے،تؤ اسی کیفیت،میںغم ھو جاتے


فقط اک ذوق پرستش کی،نقوش آرائی

دیر اگر دیر نہ ھوتے،تو حرم ھو جاتے


ھم اگر دار پر کھنچتے،تو اے صاحب دار

اپنی نا کردہ،گناہ ہی کی قسم ھو جاتے



میرےسوز دل کے جلوے،مکاں مکاں اجالے

میرےسوز دل کے جلوے،مکاں مکاں اجالے

 

میرےسوز دل کے جلوے،مکاں مکاں اجالے

میری اہ پر اثر نے،کئے آفتاب ڈھالے


مجھے گردش افتاب سے،نہیں آاحتجاج کوئی

کہ متاع جان و دل ہے،تیری زلف کے حوالے


یہ سماع بھی ھم نے دیکھا،سر خاک رل رہے ہیں

گل و انگبیں کے مالک،مہ وکہکشاں کے۔۔پالے


ابھی رنگ انسووں میں ہے،تیری عقیدتوں کا

ابھی دل بس ریے ہیں،تیری یاد کے شوالے


میری انکھ نے سنی ہے،کئی زمزموں کی آہٹ

نہیں بربتوں سے کمتر،نئے ناب کے پیالے


یہ تجلیوں کی محفل ہے،اسی کے زیر سایہ

یہ جہان کیف اسی کا،جسے وہ نظرسنبھالے



اب لفظ و بیاں سب ختم ھوئیے و دل کا کام نہین

اب لفظ و بیاں سب ختم ھوئیے، اب  و دل کا کام نہین

 اب لفظ و بیاں سب ختم ھوئیے، اب  دل کا کام نہین

اب عشق ہے خود پیغام اپنا،  عشق کا کچھ پیغام نہین


اللہ کے علم و حکمت، کے محدود، اگر اکرام نہین

ھر سانس کے آنے جانے مین، کیا کوئی نیا پیغام نہیں


 ہر خلد تمنا پیش نظر، ھر جنت کے نظارے ہین حاصل

پھر بھی ہے وہ کیا شئے سینے مین، ممکن ہی جسے آرام نہین


یہ حسن ہے کیا، یہ عشق ہے کیا، کس کو ہے خبر، لیکن

بے جام ظہور بادہ نہین، بے بادہ فروغ جام نہین


زاھد ترے سجدوں کے عوض، سب کچھ ھو مبارک تمکو مگر

وہ سجدہ یہان ہے کفر جبین، جو سجدہ کی خود انعام نہین


دنیا تو دکھی ہے پھر بھی مگر، تھک ھار کر  سو

 ہی جاتی ہے

اک تیرے ہی مقدر مین اے دل، کیون چین نہین، آرام نہین

اک شاہد معنی صورت کے، ملنے کی تمنا سبکو ہے


ھم اس کے نہ ملنے  پرہین فدا، لیکن یہ مذاق عام نہین

نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا

نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا

 

نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا

جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا


مرے چارہ گرکو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو

و ہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا


کرو کج جبیں پہ سرِ کفن ، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو

کہ غرورِ عشق کا بانکپن ، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا


اُدھر ایک حرف کے کشتنی ، یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی

جو کہا تو ہنس کے اُڑا دیا ، جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا


جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے

رہِ یار ہم نے قدم قدم۔ ......... تجھے یاد گار بنا دیا


فیض احمد فیض