حُسن اُس کا جب جہاں میں جَلوہ آرا ھو گیا جِس نے دیکھا
سنا ہے کھل گئےتھے ، ان کے گیسو سیرگلشن میں
 ﺫﮐﺮ ﺷﺐِ ﻓﺮﺍﻕ ﺳﮯ ﻭﺣﺸﺖ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﯽ
 ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
ﺗﻢ ﺗﻮ ﻭﻓﺎ ﺷﻨﺎﺱ ﻭ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﻮﺍﺯ ﮬﻮ
 اور اس دل میں کیا رکھا ہے
 گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا
لہرائے سدا آنکھ میں پیارے تیرا آنچل
دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
اب وہ منظر نہ وہ چہرے ہی نظر آتے ہیں
کیوں زیاں کار بنوں،سُود فراموش رہوں
 کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں
تیرے خیال کی اک روشنی سی رہتی ہے
وہ دل ہی کیا جو تیرے ملنے کی دعا نہ کرے
 میرے محبوب تجھے میری محبت کی قسم
 چَشمِ میگوں ، ذرا اِدھر کر دے
 کیا دن مجھے عشق نے دکھائے
 ہم جو ہر بار تیری بات میں آجاتے ہیں
 ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے