Sunday, March 23, 2025

اپنوں نے وہ رنج دئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں

 

اپنوں نے وہ رنج دئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں

اپنوں نے وہ رنج دئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں 

  • دیکھ کے اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں 
اس نگری میں قدم قدم پہ سر کو جھکانا پڑتا ہے 

اس نگری میں قدم قدم پر بت خانے یاد آتے ہیں 

آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں غربت کے صحراؤں میں 

جب اس رم جھم کی وادی کے افسانے یاد آتے ہیں 

ایسے ایسے درد ملے ہیں نئے دیاروں میں ہم کو 

بچھڑے ہوئے کچھ لوگ پرانے یارانے یاد آتے ہیں 

جن کے کارن آج ہمارے حال پہ دنیا ہستی ہے 

کتنے ظالم چہرے جانے پہچانے یاد آتے ہیں 

یوں نہ لٹی تھی گلیوں دولت اپنے اشکوں کی 

روتے ہیں تو ہم کو اپنے غم خانے یاد آتے ہیں 

کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالبؔ 

چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں۔


 حبیب جالب

semore

Tuesday, November 5, 2024

مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا

 مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا

مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا

 

مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا


یہ نہ تھا تو کاش دِل پر مُجھے اختیار ہوتا 


پسِ مرگ کاش یونہى مُجھے وصلِ یار ہوتا


وہ سرِ مزار ہوتا میں تہہِ مزار ہوتا


جو نِگاہ کى تھى ظالم تو پِھر آنکھ کیوں چُرائ 


وُہى تِیر کیوں نہ مارا جو جِگر کے پار ہوتا


وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یا رب 


میرے دونوں پہلووں میں دل بےقرار ہوتا 


میں زباں سے تُم کو سچا کہو لاکھ بار کہہ دوں


اِسے کیا کروں کے دِل کو نہیں اعتبار ہوتا


مرى خاک بھى لحد میں نہ رہى امیر باقى 


اُنہیں مرنے کا ہى اب تک نہیں اعتبار ہوتا 



امیر مینائ

semore

اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں


اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں


اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں


اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں


پھر کوئی کم بخت کشتی نذر طوفاں ہو گئی


ورنہ ساحل پر اداسی اس قدر ہوتی نہیں


تیرا انداز تغافل ہے جنوں میں آج کل


چاک کر لیتا ہوں دامن اور خبر ہوتی نہیں


ہائے کس عالم میں چھوڑا ہے تمہارے غم نے ساتھ


جب قضا بھی زندگی کی چارہ گر ہوتی نہیں


رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب


چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں


اضطراب دل سے قابلؔ وہ نگاہ بے نیاز


بے خبر معلوم ہوتی ہے مگر ہوتی نہیں


رستے میں بن کے پیار کا دریا کھڑ



اقابل اجمیری

semore

میں نے سنا ہے کہ لوگ اسے کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔



 

Sunday, November 3, 2024

آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں

آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں



 آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں 


اے جان سخن میں تیرا چہرہ بھی تو دیکھوں 


دستک تو کچھ ایسی ہے کہ دل چھونے لگی ہے 


اس حبس میں بارش کا یہ جھونکا بھی تو دیکھوں 


صحرا کی طرح رہتے ہوئے تھک گئیں آنکھیں 


دکھ کہتا ہے میں اب کوئی دریا بھی تو دیکھوں 


یہ کیا کہ وہ جب چاہے مجھے چھین لے مجھ سے 


اپنے لئے وہ شخص تڑپتا بھی تو دیکھوں 


اب تک تو مرے شعر حوالہ رہے تیرا 


اب میں تری رسوائی کا چرچا بھی تو دیکھوں 


اب تک جو سراب آئے تھے انجانے میں آئے 


پہچانے ہوئے رستوں کا دھوکا بھی تو دیکھوں


پروین شاکر


Raed more 

Saturday, November 2, 2024

تسکین جو دل کی تمہیں کرنا نہیں آتا

تسکین جو دل کی تمہیں کرنا نہیں آتا



 تسکین جو دل کی تمہیں کرنا نہیں آتا 


دل کو بھی مری جان ٹھہرنا نہیں آتا


مٹھی میں دبا کر دلِ مضطر کو وہ بولے


ہاں اب تو کہے مجھ کو ٹھہرنا نہیں آتا


اک نقش تمہارا ہے کہ وہ دل میں جما ہے


اک تم ہو کہ پہلو میں ٹھہرنا نہیں آتا


ڈر ہم کو ہے بدنام نہ دشمن ہوں تمہارے


تم کہتے ہو عُشاق کو مرنا نہیں آتا


مہندی کی جگہ مَلتے ہیں خُونِ دلِ عُشاق


کم سن ہیں ابھی انکو سنورنا نہیں آتا


دل لے میرا مجھ سے ابھی،  کر گئے انکار


پھر آپ کہیں گے کہ مُکرنا نہیں آتا


کہیے تو ابھی لیلے وہ چُٹکی مرے دل میں 


ہاتھ اسکو مگر سینے پہ دھرنا نہیں آتا 


سُن لو جو کسی روز تو کُھل جائے یہ تم پر 


آتا ہے مجھے نالہ کہ کرنا نہیں آتا


چلتے ہو جو کرتے ہوئے پامال دلوں کو 


کیا پاؤں زمیں پر تمہیں دھرنا نہیں آتا


کی موت نہ آنے کی شکایت تو وہ بولے


"ہاں ایسے ہو بھولے تمہیں مرنا نہیں آتا


اللہ تری زلف کے سودے سے بچائے


وہ جن ہے جسے چڑھ کے اُترنا نہیں آتا


چہرے پہ نہ غازہ ہے نہ بالوں میں ہے افشاں


یہ جھگڑے بھرا ان کو سنورنا نہیں آتا 


آنکھوں میں سما جائیں وہ دل میں اتر آئیں


کوٹھے سے جلیلؔ ان کو اترنا نہیں آتا



حافظ جلیل حسن جلیلؔ مانکپوری

semore


Thursday, October 31, 2024

بھول جانا تھا تو پھر اپنا بنایا کیوں تھا

بھول جانا تھا تو پھر اپنا بنایا کیوں تھا

 

بھول جانا تھا تو پھر اپنا بنایا کیوں تھا


تم نے الفت کا یقیں مجھ کو دلایا کیوں تھا


ایک بھٹکے ہوئے راہی کو سہارا دے کر


جھوٹی منزل کا نشاں تم نے دکھایا کیوں تھا


خود ہی طوفان اٹھانا تھا محبت میں اگر


ڈوبنے سے مری کشتی کو بچایا کیوں تھا


جس کی تعبیر اب اشکوں کے سوا کچھ بھی نہیں


خواب ایسا میری آنکھوں کو دکھایا کیوں تھا


اپنے انجام پہ اب کیوں ہو پشیمان صباؔ


ایک بے درد سے دل تم نے لگایا کیوں تھا


صبا افغانی

semore

شاد باد اے عشق حسن سودائے ما

شاد باد اے عشق حسن سودائے ما

 شاد باد اے عشق حسن سودائے ما


مریض محبت انہیں کا افسانہ


،سناتا رھا دم نکلتے نکلتے رھے


مگر ذکر شام الم ایا جب


،چراغ سحر بجھ گیا،جلتے جلتے


لکھا انکو خط کہ دل مضطرب ہے


،جواب انکا ایا کہ محبت نہ کرتے


تمہیں دل لگانے  کا کس نے  کہا تھا


،بہل جائے دل بہلتے بہلتے


ارادہ کیا تھا ترک محبت کا


،لیکن فریب تبسم میں پھر آگئے ھم


ابھی ٹھوکر کھا جے سنبھلنے نہ پائے


،کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے


مریض محبت انہیں کا افسانہ،سناتا رھا


،دم نکلتے نکلتے

semore

Wednesday, October 30, 2024

اچھی آنکھوں کے پُجاری ھیں مرے شہر کے لوگ

اچھی آنکھوں کے پُجاری ھیں مرے شہر کے لوگ



اچھی آنکھوں کے پُجاری ھیں مرے شہر کے لوگ


تُو مرے شہر میں آئے گا تو چھا جائے گا


ھم قیامت بھی اُٹھائیں گے تو ھوگا نہیں کچھ


تُو فقط آنکھ اُٹھائے گا تو چھا جائے گا


پھُول تو پھُول ھیں ، وہ شخص اگر کانٹے بھی


اپنے بالوں میں سجائے گا تو چھا جائے گا


یُوں تو ھر رنگ ھی سجتا ھے برابر تجھ پر


سُرخ پوشاک میں آئے گا تو چھا جائے گا


پنکھڑی ھونٹ ، مدھر لہجہ اور آواز اُداس


یار تُو شعر سُنائے گا تو چھا جائے گا 


جس مصور کی نہیں بِکتی کوئی بھی تصویر


تیری تصویر بنائے گا تو چھا جائے گا



رحمان فارس


semore

میرے بے ربط خیالات میں کیا رکھا ہے



 

تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا

تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا

 

تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا


یہاں اپنے سوا کوئی ملاقاتی نہیں ہوتا


گرفتار وفا رونے کا کوئی ایک موسم رکھ


جو نالہ روز بہہ نکلے وہ برساتی نہیں ہوتا


بچھڑنے کا ارادہ ہے تو مجھ سے مشورہ کر لو


محبت میں کوئی بھی فیصلہ ذاتی نہیں ہوتا


تمہیں دل میں جگہ دی تھی نظر سے دور کیا کرتے


جو مرکز میں ٹھہر جائے مضافاتی نہیں ہوتا



افضل خان

semore


Friday, October 25, 2024

عشق پیاسے کی صدا ھو جیسے

عشق پیاسے کی صدا ھو جیسے



 عشق پیاسے کی صدا ھو جیسے


زندگی کوئی سزا ھو جیسے


یوں تیری راہ دیکھتا ھوں میں


جیسے تو مجھے چھوڑ کیا ھو جیسے


ان کا رخسار میرے سینہ پر ہے


پھول کالر میں سجا ھو جیسے


آئینہ دیکھ کے یوں لگتا ہے


تو مجھے دیکھ رھا ھو جیسے


وہ اب نگاہ یوں بدل گیا سحر


پیار موسم کی ادا ھو جیسے


سحر

semore


Sunday, January 28, 2024

حُسن اُس کا جب جہاں میں جَلوہ آرا ھو گیا جِس نے دیکھا

حُسن اُس کا جب جہاں میں جَلوہ آرا ھو گیا جِس نے دیکھا




حُسن اُس کا جب جہاں میں جَلوہ آرا ھو گیا جِس نے دیکھا جِس طَرف محوِ
 تَماشا ھو گیا

 انجُمن میں جِس طَرف وہ لُطف فَرما ھو گیا کوئی عِیسٰی ھو
 گیا اور کوئی مُوسٰی ھو گیا

 وہ جو اُٹھے، انجُمن

 میں حَشر بَرپا ھو گیا یه
 قیامَت کا نیا مَضمُون 

پَیدا ھو گیا

 گر کہوں تو یه کہو گے

 تُجھکو سودا ھو
 گیا اِس زمانے میں کُچھ ایسا رنگِ دُنیا ھو گیا اِک بزُرگِ وَقت آئے ھیں یه
 چَرچا ھو گیا میں خُدا کے گھر میں جا کر اور رُسوا ھو گیا بُت پَرستی کرتے
 کرتے میں تو ایسا ھو گیا اھلِ ایماں کو بھی مُجھ سے رَشک پَیدا ھو گیا
 جب بھی خاطِر خُواہ تو نکلا نھیں دل کا غُبار جا کے جِس صِحرا میں رویا وہ
 بھی دَریا ھو گیا اب کہاں سوزِ جِگر اور دِلگُدازی وہ کہاں

 عِشق بازی اب تو
 کارِ اھلِ دُنیا ھو گیا جو مَکاں اُس نے بنایا رُوکشِ جَنت بنا جو شَجر اُس نے
 لگایا رَشکِ طُوبٰی ھو گیا نام اُس کا لیتے ھی تَسکین 

دل کو ھو گئی اب وہ
 آئے یا نه آئے کام اپنا ھو گیا اب مُجھی پر حصر کیا ھے اُسکے وہ انداز ھیں
 جو گیا محفل میں اُس کی اک ادا کا ھو گیا نُور افشاں وہ گُلِ رعنا جو آیا
 باغ میں دیدۂ نرگس چَمن میں چَشمِ بِینا ھو گیا ھر نَفَس کے ساتھ جو آنے
 لگی آواز سی کیا ھمارے دل کے اندر کوئی پَیدا ھو گیا مِٹتے مِٹتے مِٹ گئی
 یادِ بُتانِ سَنگدِل رَفته رَفته دل ھمارا، گھر خُدا کا ھو گیا میری آہِ نِیم شَب
 سے دل جو لرزا یار کا وہ بھی کیا یارب ترا عَرشِ مُعلٰی ھو گیا

 گرد جَھاڑی
 پیرِ مَیخانه نے اپنے ھاتھ سے دامنِ دُردی کشاں رَشکِ مُصلّا ھو گیا

 شِکوہ اُن
 سے کِیّـا کریں، 

کیوں انجُمن میں ھم گئے ھو گیا تقدیر میں جو کُچھ لکھا تھا،
 ھو گیا وہ عَیادَت کو ھیں آتے، غَیر کہہ کر چَل دیا تھا فَرشته موت کا،
 رَشکِ مَسیحا ھو گیا انقلابِ دہر ســـے شایَد بنا ھـــے

 آدمی ھر نَفَس میں کہہ
 نھیں سکتا که کیا کیا ھو گیا ذاتِ پاکِ پیرِ مَیخانه ھــے اک ابرِ کرم جو گیا
 قَطرے کا طالِب وہ ھی دَریا ھو گیا جو نه ھوتا کُچھ بھی واعِظ کِس کو
 کرتے رَہینِ مَے دُشمنِ توبه تُمھارا یه مُصلّا ھو گیا ھم کو دیکھا اور دیکھا
 بھی نگاہِ لُطف سے ھو گیا کُچھ تو اثر اپنی دُعا کا ھو گیا کُوچهء دِلبر نے
 میرا کر لیا سَجدہ قُبول اب تو خاصُ الخاص میں بندہ خُدا کا ھو گیا
 دِلکشی سی دِلکشی ھے دِلبری سی دِلبری جِس نے دیکھا

 نَقش اُس کا وہ ھی
 شَیدا ھو گیا یه خَبر اب تک نھیں مَیخانهء اُلفَت میں

 دِل جامِ کوثر ھو گیا
 یا جامِ صِہبا ھو گیا جان دے کر کُوچهء پیرِ مُغاں 

میں دیکھا خاکِ پا مائلؔ
 بھی خاصانِ خُدا کا ھو گیا


 حَضرت_مِرزا_مُحمَد_تَقی

semor

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا