Urdu poetry99
Based on the source provided, you can **find poetry in Urdu by famous Pakistani and Indian poets**. The source indicates that it is easy to **text copy and paste Urdu poetry** and to **read the famous Urdu shayari and the latest**.
Sunday, March 23, 2025
Tuesday, November 5, 2024
مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا
مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا
مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا
یہ نہ تھا تو کاش دِل پر مُجھے اختیار ہوتا
پسِ مرگ کاش یونہى مُجھے وصلِ یار ہوتا
وہ سرِ مزار ہوتا میں تہہِ مزار ہوتا
جو نِگاہ کى تھى ظالم تو پِھر آنکھ کیوں چُرائ
وُہى تِیر کیوں نہ مارا جو جِگر کے پار ہوتا
وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یا رب
میرے دونوں پہلووں میں دل بےقرار ہوتا
میں زباں سے تُم کو سچا کہو لاکھ بار کہہ دوں
اِسے کیا کروں کے دِل کو نہیں اعتبار ہوتا
مرى خاک بھى لحد میں نہ رہى امیر باقى
اُنہیں مرنے کا ہى اب تک نہیں اعتبار ہوتا
امیر مینائ
semore
اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں
اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں
اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں
پھر کوئی کم بخت کشتی نذر طوفاں ہو گئی
ورنہ ساحل پر اداسی اس قدر ہوتی نہیں
تیرا انداز تغافل ہے جنوں میں آج کل
چاک کر لیتا ہوں دامن اور خبر ہوتی نہیں
ہائے کس عالم میں چھوڑا ہے تمہارے غم نے ساتھ
جب قضا بھی زندگی کی چارہ گر ہوتی نہیں
رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں
اضطراب دل سے قابلؔ وہ نگاہ بے نیاز
بے خبر معلوم ہوتی ہے مگر ہوتی نہیں
رستے میں بن کے پیار کا دریا کھڑ
اقابل اجمیری
semore
میں نے سنا ہے کہ لوگ اسے کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
Sunday, November 3, 2024
آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں
آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں
اے جان سخن میں تیرا چہرہ بھی تو دیکھوں
دستک تو کچھ ایسی ہے کہ دل چھونے لگی ہے
اس حبس میں بارش کا یہ جھونکا بھی تو دیکھوں
صحرا کی طرح رہتے ہوئے تھک گئیں آنکھیں
دکھ کہتا ہے میں اب کوئی دریا بھی تو دیکھوں
یہ کیا کہ وہ جب چاہے مجھے چھین لے مجھ سے
اپنے لئے وہ شخص تڑپتا بھی تو دیکھوں
اب تک تو مرے شعر حوالہ رہے تیرا
اب میں تری رسوائی کا چرچا بھی تو دیکھوں
اب تک جو سراب آئے تھے انجانے میں آئے
پہچانے ہوئے رستوں کا دھوکا بھی تو دیکھوں
پروین شاکر
Raed more
Saturday, November 2, 2024
تسکین جو دل کی تمہیں کرنا نہیں آتا
تسکین جو دل کی تمہیں کرنا نہیں آتا
دل کو بھی مری جان ٹھہرنا نہیں آتا
مٹھی میں دبا کر دلِ مضطر کو وہ بولے
ہاں اب تو کہے مجھ کو ٹھہرنا نہیں آتا
اک نقش تمہارا ہے کہ وہ دل میں جما ہے
اک تم ہو کہ پہلو میں ٹھہرنا نہیں آتا
ڈر ہم کو ہے بدنام نہ دشمن ہوں تمہارے
تم کہتے ہو عُشاق کو مرنا نہیں آتا
مہندی کی جگہ مَلتے ہیں خُونِ دلِ عُشاق
کم سن ہیں ابھی انکو سنورنا نہیں آتا
دل لے میرا مجھ سے ابھی، کر گئے انکار
پھر آپ کہیں گے کہ مُکرنا نہیں آتا
کہیے تو ابھی لیلے وہ چُٹکی مرے دل میں
ہاتھ اسکو مگر سینے پہ دھرنا نہیں آتا
سُن لو جو کسی روز تو کُھل جائے یہ تم پر
آتا ہے مجھے نالہ کہ کرنا نہیں آتا
چلتے ہو جو کرتے ہوئے پامال دلوں کو
کیا پاؤں زمیں پر تمہیں دھرنا نہیں آتا
کی موت نہ آنے کی شکایت تو وہ بولے
"ہاں ایسے ہو بھولے تمہیں مرنا نہیں آتا
اللہ تری زلف کے سودے سے بچائے
وہ جن ہے جسے چڑھ کے اُترنا نہیں آتا
چہرے پہ نہ غازہ ہے نہ بالوں میں ہے افشاں
یہ جھگڑے بھرا ان کو سنورنا نہیں آتا
آنکھوں میں سما جائیں وہ دل میں اتر آئیں
کوٹھے سے جلیلؔ ان کو اترنا نہیں آتا
حافظ جلیل حسن جلیلؔ مانکپوری
semore
Thursday, October 31, 2024
بھول جانا تھا تو پھر اپنا بنایا کیوں تھا
بھول جانا تھا تو پھر اپنا بنایا کیوں تھا
تم نے الفت کا یقیں مجھ کو دلایا کیوں تھا
ایک بھٹکے ہوئے راہی کو سہارا دے کر
جھوٹی منزل کا نشاں تم نے دکھایا کیوں تھا
خود ہی طوفان اٹھانا تھا محبت میں اگر
ڈوبنے سے مری کشتی کو بچایا کیوں تھا
جس کی تعبیر اب اشکوں کے سوا کچھ بھی نہیں
خواب ایسا میری آنکھوں کو دکھایا کیوں تھا
اپنے انجام پہ اب کیوں ہو پشیمان صباؔ
ایک بے درد سے دل تم نے لگایا کیوں تھا
صبا افغانی
semore
شاد باد اے عشق حسن سودائے ما
شاد باد اے عشق حسن سودائے ما
مریض محبت انہیں کا افسانہ
،سناتا رھا دم نکلتے نکلتے رھے
مگر ذکر شام الم ایا جب
،چراغ سحر بجھ گیا،جلتے جلتے
لکھا انکو خط کہ دل مضطرب ہے
،جواب انکا ایا کہ محبت نہ کرتے
تمہیں دل لگانے کا کس نے کہا تھا
،بہل جائے دل بہلتے بہلتے
ارادہ کیا تھا ترک محبت کا
،لیکن فریب تبسم میں پھر آگئے ھم
ابھی ٹھوکر کھا جے سنبھلنے نہ پائے
،کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے
مریض محبت انہیں کا افسانہ،سناتا رھا
،دم نکلتے نکلتے
semore
Wednesday, October 30, 2024
اچھی آنکھوں کے پُجاری ھیں مرے شہر کے لوگ
اچھی آنکھوں کے پُجاری ھیں مرے شہر کے لوگ
تُو مرے شہر میں آئے گا تو چھا جائے گا
ھم قیامت بھی اُٹھائیں گے تو ھوگا نہیں کچھ
تُو فقط آنکھ اُٹھائے گا تو چھا جائے گا
پھُول تو پھُول ھیں ، وہ شخص اگر کانٹے بھی
اپنے بالوں میں سجائے گا تو چھا جائے گا
یُوں تو ھر رنگ ھی سجتا ھے برابر تجھ پر
سُرخ پوشاک میں آئے گا تو چھا جائے گا
پنکھڑی ھونٹ ، مدھر لہجہ اور آواز اُداس
یار تُو شعر سُنائے گا تو چھا جائے گا
جس مصور کی نہیں بِکتی کوئی بھی تصویر
تیری تصویر بنائے گا تو چھا جائے گا
رحمان فارس
semore
میرے بے ربط خیالات میں کیا رکھا ہے
تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا
تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا
یہاں اپنے سوا کوئی ملاقاتی نہیں ہوتا
گرفتار وفا رونے کا کوئی ایک موسم رکھ
جو نالہ روز بہہ نکلے وہ برساتی نہیں ہوتا
بچھڑنے کا ارادہ ہے تو مجھ سے مشورہ کر لو
محبت میں کوئی بھی فیصلہ ذاتی نہیں ہوتا
تمہیں دل میں جگہ دی تھی نظر سے دور کیا کرتے
جو مرکز میں ٹھہر جائے مضافاتی نہیں ہوتا
افضل خان
semore
Friday, October 25, 2024
عشق پیاسے کی صدا ھو جیسے
عشق پیاسے کی صدا ھو جیسے
زندگی کوئی سزا ھو جیسے
یوں تیری راہ دیکھتا ھوں میں
جیسے تو مجھے چھوڑ کیا ھو جیسے
ان کا رخسار میرے سینہ پر ہے
پھول کالر میں سجا ھو جیسے
آئینہ دیکھ کے یوں لگتا ہے
تو مجھے دیکھ رھا ھو جیسے
وہ اب نگاہ یوں بدل گیا سحر
پیار موسم کی ادا ھو جیسے
سحر
semore
Sunday, January 28, 2024
حُسن اُس کا جب جہاں میں جَلوہ آرا ھو گیا جِس نے دیکھا
حُسن اُس کا جب جہاں میں جَلوہ آرا ھو گیا جِس نے دیکھا جِس طَرف محوِ
تَماشا ھو گیا
انجُمن میں جِس طَرف وہ لُطف فَرما ھو گیا کوئی عِیسٰی ھو
گیا اور کوئی مُوسٰی ھو گیا
وہ جو اُٹھے، انجُمن
میں حَشر بَرپا ھو گیا یه
قیامَت کا نیا مَضمُون
پَیدا ھو گیا
گر کہوں تو یه کہو گے
تُجھکو سودا ھو
گیا اِس زمانے میں کُچھ ایسا رنگِ دُنیا ھو گیا اِک بزُرگِ وَقت آئے ھیں یه
چَرچا ھو گیا میں خُدا کے گھر میں جا کر اور رُسوا ھو گیا بُت پَرستی کرتے
کرتے میں تو ایسا ھو گیا اھلِ ایماں کو بھی مُجھ سے رَشک پَیدا ھو گیا
جب بھی خاطِر خُواہ تو نکلا نھیں دل کا غُبار جا کے جِس صِحرا میں رویا وہ
بھی دَریا ھو گیا اب کہاں سوزِ جِگر اور دِلگُدازی وہ کہاں
عِشق بازی اب تو
کارِ اھلِ دُنیا ھو گیا جو مَکاں اُس نے بنایا رُوکشِ جَنت بنا جو شَجر اُس نے
لگایا رَشکِ طُوبٰی ھو گیا نام اُس کا لیتے ھی تَسکین
دل کو ھو گئی اب وہ
آئے یا نه آئے کام اپنا ھو گیا اب مُجھی پر حصر کیا ھے اُسکے وہ انداز ھیں
جو گیا محفل میں اُس کی اک ادا کا ھو گیا نُور افشاں وہ گُلِ رعنا جو آیا
باغ میں دیدۂ نرگس چَمن میں چَشمِ بِینا ھو گیا ھر نَفَس کے ساتھ جو آنے
لگی آواز سی کیا ھمارے دل کے اندر کوئی پَیدا ھو گیا مِٹتے مِٹتے مِٹ گئی
یادِ بُتانِ سَنگدِل رَفته رَفته دل ھمارا، گھر خُدا کا ھو گیا میری آہِ نِیم شَب
سے دل جو لرزا یار کا وہ بھی کیا یارب ترا عَرشِ مُعلٰی ھو گیا
گرد جَھاڑی
پیرِ مَیخانه نے اپنے ھاتھ سے دامنِ دُردی کشاں رَشکِ مُصلّا ھو گیا
شِکوہ اُن
سے کِیّـا کریں،
کیوں انجُمن میں ھم گئے ھو گیا تقدیر میں جو کُچھ لکھا تھا،
ھو گیا وہ عَیادَت کو ھیں آتے، غَیر کہہ کر چَل دیا تھا فَرشته موت کا،
رَشکِ مَسیحا ھو گیا انقلابِ دہر ســـے شایَد بنا ھـــے
آدمی ھر نَفَس میں کہہ
نھیں سکتا که کیا کیا ھو گیا ذاتِ پاکِ پیرِ مَیخانه ھــے اک ابرِ کرم جو گیا
قَطرے کا طالِب وہ ھی دَریا ھو گیا جو نه ھوتا کُچھ بھی واعِظ کِس کو
کرتے رَہینِ مَے دُشمنِ توبه تُمھارا یه مُصلّا ھو گیا ھم کو دیکھا اور دیکھا
بھی نگاہِ لُطف سے ھو گیا کُچھ تو اثر اپنی دُعا کا ھو گیا کُوچهء دِلبر نے
میرا کر لیا سَجدہ قُبول اب تو خاصُ الخاص میں بندہ خُدا کا ھو گیا
دِلکشی سی دِلکشی ھے دِلبری سی دِلبری جِس نے دیکھا
نَقش اُس کا وہ ھی
شَیدا ھو گیا یه خَبر اب تک نھیں مَیخانهء اُلفَت میں
دِل جامِ کوثر ھو گیا
یا جامِ صِہبا ھو گیا جان دے کر کُوچهء پیرِ مُغاں
میں دیکھا خاکِ پا مائلؔ
بھی خاصانِ خُدا کا ھو گیا
حَضرت_مِرزا_مُحمَد_تَقی
semor
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
Subscribe to:
Posts (Atom)
-
مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا مرے بس میں کاش یارب وہ سِتم شعار ہوتا یہ نہ تھا تو کاش دِل پر مُجھے اختیار ہوتا پسِ مرگ کاش یونہى ...
-
اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں پھر کوئی کم بخت کشتی نذر طوفاں ہو گئی ورنہ ساحل پر اداسی اس...